آئلہ، تم کل پندرہ سال کی ہو جاؤ گی، خدا تمہیں ہمیشہ کامیابیاں دے۔ یار میں نے حساب لگایا ہے کہ عورت ہونا بڑا مشکل ہو گیا ہے۔
بیٹی، میں نے دیکھا ہے کہ دنیا میں لڑکی چاہے جہاں بھی ہو، اگر وہ آپ کی اولاد ہے تو کامیابیوں کی یہ دعا ایک ماں یا باپ سے بہتر کوئی دے نہیں سکتا۔ اصل میں وہ جانتے ہیں کہ ہماری اولاد میں کیا خوبی ہے اور کیا کمی ہے، اور لڑکی ہونے کی حیثیت سے اسے کہاں کہاں کس امتحان سے گزرنا پڑے گا۔
تم حیران ہو گی، تم کہو گی کہ بابا تو چنگا بھلا پرو فیمنزم تھا، اسے اس طرح کی سڑی ہوئی باتیں کیوں یاد آ رہی ہیں۔
زینب، جیسے پہلی لائن میں حساب لگانے کا لکھا تھا میں نے، تو وہ جو معاملہ ہے نا، وہ گھما پھرا کے اس نتیجے پہ آیا ہے کہ عورت کو ہر مشکل ملٹی پلائی بائے ٹین ہو کے ملتی ہے۔
دیکھو فرض کرو کہ تمہیں فون پہ مارٹ سے کچھ منگوانا ہے۔ پہلے تم سوچو گی کہ اپنے نمبر سے فون کروں یا نہ کروں؟ پھر تم خیال کرو گی کہ اگر سامان آ گیا تو دروازے پہ لینے کون جائے گا؟ پھر تم دماغ لڑاؤ گی کہ اگر میں گئی تو دن کا ٹائم مناسب ہو گا آرڈر کے لیے۔ پھر خیال آئے گا کہ اس وقت میرے کپڑے کیسے ہیں دروازے تک جانے کے لیے۔ پھر تم کافی دیر تک غور کرو گی کہ اور کوئی چیز رہ تو نہیں گئی گھر میں جو کم ہو؟ آخر تم سارے کھاتے سوچ کے آرڈر کرو گی اور ڈیلیوری آ جائے گی۔ اب اگر یہاں 15 سال کا میں ہوتا تو چڈی بنیان میں جا کے لا بھی چکا ہوتا۔
یہ نہیں کہ تم کہو صرف پاکستان میں ایسا ہے، تم دنیا کے آخری کونے تک بھی گھوم آؤ، تمہیں اس فرق کا سامنا رہے گا۔ کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں عورت کو مرنے کے بعد بھی تنقیدی نظر سے نہ دیکھا جاتا ہو۔ اسے انگریزی میں جج کرنا کہتے ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مرد سالے تو جج کرتے ہی ہیں عورتیں خود ایک دوسرے کے لیے زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہیں اس معاملے میں۔ تم خود بتاؤ، تم دوستوں میں جاتی ہو تو اچھے کپڑے پہنتے ہوئے تمہیں یہی خیال ہوتا ہے نا کہ رامین تعریف کرے گی یا کوئی اور سہیلی، کیونکہ لڑکوں میں تو کسی کو فیشن کا پتہ ہوتا ہے نہ پچھلی بار کے کپڑے یاد ہوتے ہیں، انہوں نے تو صرف ایک بڑا سا واؤ کہنا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں یہی سین ہے بیٹا، ملٹی پلائے بائے ٹین ایویں نئیں لکھا میں نے۔
دیکھو، یہ چیزیں تمہیں پتہ ہیں، میں اس لیے یاد دلا رہا ہوں کہ مجھے ماحول بنانے میں آسانی رہے۔ بیٹی ہم نعرے لگاتے ہیں کہ مرد اور عورت کو برابر حقوق ملنے چاہئیں، جہاں تک ہوتا ہے اس بات کی تبلیغ بھی کرتے ہیں، دل سے اس پہ یقین بھی رکھتے ہیں لیکن ۔۔۔ لیکن میرا حساب کہتا ہے کہ دل سے مانو تو سہی مگر اپنی ساری عمر تم اس مقابلے بازی میں ضائع نہ کرو میری بچی۔
حق کے لیے کھڑے ہونے والے پیغمبر لوگ تھے، مہاتما تھے، اپنے وقت کے عظیم جنگ جو تھے، تم بس نیویں نیویں ہو کے اپنا راستہ بناؤ۔ اگر برابری کا انقلاب کوئی آنا ہوتا تو اب تک آ چکا ہوتا۔ لاکھوں زندگیاں گل گئیں، ہزاروں جوانیوں کو بڑھاپا چاٹ گیا، کسی کو ان کا نام بھی یاد نہیں جو اس راستے میں کام آ گئے۔ چند ایک جو یاد ہیں، ان کی شاید قسمت اچھی تھی ورنہ خود انہیں زندگی بھر کیا بھگتنا پڑا وہ تم رتھ فاؤ، عاصمہ جہانگیر، ملالہ، بے نظیر بھٹو یا کسی کی بھی زندگی کے بارے میں پڑھ سکتی ہو۔
اب غور کرو، تاریخ پہ نظر ڈالو، تمہیں دنیا کے پچھلے کئی ہزار سال میں بڑے فیصلے کرنے والے زیادہ تر مرد ملیں گے۔ چاہے کوئی عقیدہ ہو، کوئی بڑی لڑائی ہو، کوئی تباہی ہو، سو دو برس پہلے تک کوئی اہم کتاب ہو، اسی نوے فیصد مرد چھائے نظر آئیں گے۔ میرے خیال میں اگر مردوں جتنی ہموار زندگی عورتوں کو ملتی اور وہ سارے مسئلے جو عورتوں کے ساتھ قدرت نے جوڑے ہیں، وہ اگر مردوں کو ملتے تو سب کچھ الٹ ہوتا، یہ تاریخ تب عورتوں نے لکھی ہوتی۔
معاملہ ظالم اور مظلوم، طاقت ور اور کمزور کا نہیں ہے آئلہ، اصل بات اس فرصت کی ہے جو مرد کے حصے میں قدرت نے رکھی ہے۔ سب سے پہلے ماں ہونے کا معاملہ دیکھ لو۔ جسم کی بنیادیں ہل جاتی ہیں تو ایک زندگی وجود میں آتی ہے اور پھر اس کے ساتھ ماں کا رابطہ ایسا بے چینی والا ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے مقدس ترین مشن پر بھی نکل جائے اولاد نہیں بھولتی، مرد لوگ جو ہیں وہ بیٹے اپنے مقصد کی راہ میں قربان کر سکتے ہیں یار، عورت نہیں کر سکتی۔
پھر یہ دیکھو کہ جو تبدیلیاں نو دس سال کے بعد لڑکے میں آتی ہیں، وہ آرام سے بڑا ہو جاتا ہے، اسے پتہ ہی نہیں لگتا کب بچپن گیا، کب جوانی آ گئی۔ لڑکی دس گیارہ برس کے بعد ساری زندگی عورت ہونے کا جو سرٹیفیکیٹ حاصل کرتی ہے اس کی بہت بڑی قیمت وہ دماغی تناؤ اور جسمانی مسئلے ہیں جن سے اسے ہر باقاعدگی گزرنا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ سب لڑکوں کے ساتھ کیوں نہیں ہوتا؟
میری شہزادی، تمہارا کام یہ سوچنا نہیں۔ تمہیں اسے قبول کرتے ہوئے اور کسی کو چیلنج نہ کرتے ہوئے اپنا راستہ نکالنا ہے۔ بیج کو اگر زمین سے لڑنا پڑتا تو وہ کبھی راستہ نہ دیتی۔ بیج پیار محبت سے، روزانہ کوشش کر کے، ایک ایک سوتر اوپر نکلتا ہے اور بہت بڑا درخت بن کے صدیوں کھڑا رہتا ہے، بیٹی زندگی یہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پھر ان سب پابندیوں کو دیکھو جنہیں معلوم تاریخ سے آج تک عورتیں بھگت رہی ہیں، کیا ایک مرد ان کا اندازہ بھی کر سکتا ہے؟ یار خود ایک بہن ہونا، بیٹی ہونا، ماں ہونا، کسی سے رشتے میں ہونا، ان سب معاشرتی حیثیتوں میں جو شدت کا جذبہ ایک عورت کے اندر ہوتا ہے وہ مرد میں کہاں ملے گا؟ یہ خود اپنے اندر ایک پابندی ہے، ایک زنجیر ہے۔ کسی ناانصافی کی صورت میں مرد ٹھنڈا سانس بھر کے چپ ہو سکتا ہے لیکن عورت اپنی اولاد، باپ، بھائی یا شوہر کے لیے دوپٹہ کمر سے باندھ کے کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ بڑا پیچیدہ معاملہ ہے۔
مرد دنیا کا غم کھا سکتا ہے، اپنے گھر کا غم اسے زیادہ تنگ نہیں کرتا۔ عورت کے لیے اپنے آس پاس رہنے والے شدید اہم ہیں، اور یہ حقیقت ہے۔ اسے آپ بدل نہیں سکتے، یہ فطرت میں ہے۔ دنیا بھاڑ میں چلی جاتی ہے اگر عورت کا اپنا گھر ڈسٹرب ہو۔ تو اگر عورت ایسی نہ ہوتی، اور اگر مرد ویسا نہ ہوتا، اور اگر دونوں کے رول ایک دوسرے سے بدل دیے جاتے تو بس تب ہی ایسا ہوتا کہ دنیا کی ہسٹری میں کہیں مردوں کا ذکر نہ ملتا، یا بہت کم ہوتا، اور ایسا ہوتا تو کیسا ہوتا؟ سوچنا بھی مشکل لگ رہا ہے استاد!
اب اس کا مطلب یہ نہیں نکالو کہ عورت کمزور ہے اور مرد طاقتور۔ نہیں، اس پورے خط کا مقصد صرف ایک بات سمجھانا ہے کہ بیٹی مرد کے پاس فرصت زیادہ ہے۔ میری دعا ہے کہ تم مردوں سے زیادہ کامیاب ہو لیکن اس کا راستہ تمہیں انہی مردوں کو دائیں بائیں کر کے نکالنا ہے۔ تم یہ سب کرتے ہوئے کسی سے رشتے میں آؤ گی، پھر ماں بنو گی، پھر ہم بوڑھے اماں ابا تمہارے پاؤں کی زنجیر ہوں گے، پھر تمہیں اپنا گھر دیکھنا ہو گا لیکن ساتھ ساتھ نوکری یا کاروبار، جو تمہارے نصیب میں ہوا، وہ بھی کرنا ہو گا۔ تو ایک عورت ہوتے ہوئے تمہاری ذہنی اور جسمانی فٹیگ زیادہ ہو گی۔
بس یہ چیز مجھے تنگ کرتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جیسے میں اب تک کچھ نہ کچھ کر کے زندگی کما گیا، تم بھی کر جاتی، لیکن تمہیں اپنی ماں والے راستے پہ چلنا ہو گا اور اس کا راستہ بڑا مشکل ہے۔ تمہارے پیدا ہونے کے بعد میری نسبت تم اس کے ساتھ بہت زیادہ رہی ہو، تم نے اسے چوبیس گھنٹے کھپتے دیکھا ہے، کیا تم اس راستے کے لیے تیار ہو؟
سولہویں سال میں قدم رکھتی ہوئی میری عقل مند لڑکی، دنیا میں تمہارے جیسے کئی لوگ اپنے 'ازم' کے چکر میں برباد ہو گئے۔ سوشلزم، کیپیٹلزم، فیمنزم، لبرل ازم اور چھتیس قسم کے ازم، لیکن یاد رکھو ایک جیتا جاگتا انسان کسی ازم میں فٹ نہیں ہو سکتا۔ تمہارے لیے ممکن ہو تو اپنا ' آئلہ ازم ' خود بناؤ، دنیا تمہیں فالو کرے، لیکن تم کسی بنے بنائے ازم میں فٹ ہونے کی کوشش نہ کرنا۔ اس میں کچھ نہیں رکھا۔ کچھ سوالوں کے جواب تمہیں مل جاتے ہیں لیکن ان جوابوں کی نسبت بہتر ہوتا ہے کہ وہ سوال تشنہ رہ جاتے، ان کا جواب کبھی نہ ملتا۔ یہ میری زندگی کا حاصل ہے بیٹی۔
باقی نام خدا تم اب تک بہترین رزلٹ لا رہی ہو، گانے کا ٹیلنٹ تمہارے پاس ہے، بزنس پڑھ رہی ہو، لوگوں سے بات کرنا تمہیں آتا ہے، سٹیج پہ مجھ سے زیادہ کانفیڈنس تم میں ہوتا ہے، کل ملا کے تم ٹھیک سمت میں ہو۔ ایسے ہی جڑی رہو مگر دھیان کہ ترقی سے زیادہ انسان اہم ہیں
کٹ تھروٹ مقابلے کا مطلب لوگوں کے گلے کاٹ کر آگے بڑھنا ہے، تمہیں یہی دور ملے گا، ہم سے زیادہ سخت، لیکن یاد رکھنا، یہ لفظ گوروں کی ایجاد ہے۔ ہمارے بڑے موہنجو دڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا اور سندھ دریا کے کنارے آباد تھے، ہمیں انہوں نے ایسا کچھ نہیں سکھایا۔ خدا تمہیں ڈھیروں کامیابیاں دے۔
تمہارا بابا۔