پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے ایک مرتبہ پھر کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) بلانے کا عندیہ دیتے ہوئے اپنے اختلافات دور کرنے اور تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے خلاف متحد ہونے کا عزم کیا ہے۔
ان خواہشات کا اظہار جمیعت علمائے اسلام ف (جے یو آئی۔ ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف کے درمیان منگل کو اسلام آباد میں ایک ملاقات میں کیا گیا۔
یاد رہے کہ پاکستانی پارلیمان میں حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتیں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی محرم کے بعد آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلانے کا اعلان کر چکی ہیں۔
جے یو آئی۔ایف اور جماعت اسلامی اس اے پی سی سے دور رہنے کے اشارات دے چکی ہیں۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف نے حزب اختلاف کی جماعتوں کو پارلیمان کے اندر اور باہر متحد کر کے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔
مل کر آگے بڑھنے پہ اتفاق ہوا ہے رہبر کمیٹی کا اجلاس ہوگا اور اے پی سی بھی ضرور ہوگی.کیا تیل کی قیمتیں ہمارے زمانے میں آسمان سے باتیں کررہی تھیں؟کیا چینی اسکینڈل ہمارے زمانے میں ہوا کیا گندم کا بحران ہمارے زمانے میں ہوا؟اس بدتر کارکردگی اور کیا ہوگی؟@CMShehbaz pic.twitter.com/monjA5itmy
— PML(N) (@pmln_org) August 25, 2020
تاہم مولانا فضل الرحمن نے حزب اختلاف کی جماعتوں میں یکسوئی کے فقدان پر افسوس کا اظہار کیا اور بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مزید بات چیت کو اپوزیشن کی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مشاورت سے مشروط کر دیا۔
جے یو آئی ایف نے پارلیمان میں کم نمائندگی رکھنے والی حزب اختلاف کی جماعتوں کا اجلاس محرم کے بعد بلایا ہوا ہے جس میں بڑی جماعتوں سے تعاون اور دوسرے امور زیر بحث آئیں گے۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے ایوان سے واک آوٹ کیا تھا۔
تاہم ایوان کے باہر مولانا فضل الرحمن اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کے رہنما مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لیڈران سے الگ تھلگ رہے اور دونوں جتھوں نے میڈیا سے الگ الگ گفتگو کی۔
مولانا فضل الرحمن گذشتہ سال ان کی جماعت کے زیر اہتمام آزادی مارچ سے متعلق مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مبینہ سرد مہری پر متواتر تنقید کرتے رہے ہیں۔ اور دونوں جماعتوں پر تحریک انصاف حکومت کو مضبوط بنانے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی مولانا فضل الرحمن کو منانے اور انہیں متحدہ اپوزیشن میں شامل کرنے کی کوشش سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو نے سیاسی امور پر نظر رکھنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور جاننے کی کوشش کی کہ حزب اختلاف کی جماعتیں تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو گرانے سے متعلق کتنا سنجیدہ ہیں، یہ کام ان کے لیے کس حد تک قابل عمل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اکثر تجزیہ کار اس بات پر متفق پائے گئے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں عمران خان کی حکومت کو ہٹانے سے متعلق الگ الگ نقطہ نظر رکھتی ہیں۔ جس کے باعث کسی متفقہ حکمت عملی کا سامنے آنا اور اس پر عمل درآمد ہونا بعید از قیاس ہے۔
سینئیر صحافی ایم ضیا الدین کا کہنا تھا: 'مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی چاہتی ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت پانچ سال کی مدت مکمل کرے اور آئندہ انتخابات میں عوام کارکردگی کی بنیاد پر اس جماعت کو مسترد کرے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت وفاقی حکومت کو ختم کیا جانا عمران خان کو ہیرو بنانے کے مترادف ہو گا جو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کبھی نہیں چاہیں گی۔
صحافی اور کئی کتابوں کے مصنف زاہد حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن اس وقت حزب اختلاف میں سب سے زیادہ متحرک رہنما ہیں۔ تاہم مسلم لیگ ن میں خود اعتمادی بہت زیادہ ہے۔
ان کا خیال تھا کہ مسلم لیگ ن اپنے آپ کو 2023 کے عام انتخابات کے بعد خود کو وفاقی حکومت میں دیکھتی ہے اور اسی لیے وہ عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک سے دور رہنے کو ترجیح دے رہی ہے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ حکومت مخالف تحریک سے جمہوریت اور جمہوری عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں نہیں ہو گا۔
صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ تحریک کی صورت میں کچھ دوسری قوتوں کو موقع مل سکتا ہے اور اسی لیے ایسا کوئی امکان نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کی جماعتیں اے پی سیز بھی کرتی رہیں گیں اور وفاقی حکومت کے خلاف بیانات بھی آئیں گے، لیکن یہ سارا سلسلہ اس سے آگے نہیں بڑھ پائے گا۔
مظہر عباس کا مزید کہنا تھا: 'شہباز شریف کو یقین ہے کہ اسٹبلشمنٹ ابھی عمران خان کی پشت پر موجود ہے ایسے میں وہ عمران خان کی مخالفت کر کے کس سے لڑیں گے۔'
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑائی میں تو بےنظیر بھٹو بھی کامیاب نہیں ہو پائیں تھیں۔
ان کا خیال تھا کہ شہباز شریف نے پیر کو پارٹی رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس میں بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
وہ پوری لیڈرشپ کے ساتھ موجود تھے لیکن پوری گفتگو میں حکومت کے خاتمے کا مطالبہ سامنے نہیں آیا۔
ایم ضیا الدین نے مظہر عباس کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا: 'دراصل جو لوگ عمران خان کو لائے ہیں انہیں فی الحال ان کی ضرورت ہے اور حزب اختلاف اس بات کو بخوبی جانتی ہے۔'
اس سوال کے جواب میں کہ کیا حزب اختلاف کی جماعتیں پارلیمان کے اندر کسی تبدیلی کی وجہ بن سکتی ہیں زاہد حسین کا کہنا تھا: 'پارلیمان کے اندر یہ لوگ متحد تو ہو سکتے ہیں۔ لیکن کسی تبدیلی کا امکان بالکل بھی نہیں ہے۔ اور یہ ہم دیکھ بھی چکے ہیں۔
تمام تجزیہ کار متفق تھے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں محرم کے بعد اے پی سی کا انعقاد کر لیں گی، تاہم یہ نشستم برخواستم سے زیادہ کچھ نہیں ہو گی۔
زاہد حسین کا تو کہنا تھا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو اجلاسوں اور اے پی سیز کے باوجود اکٹھے ہونا محال ہے۔
مظہر عباس نے کہا: 'اے پی سی ہو گی لیکن اگر مگر کے ساتھ اختتام کو پہچ جائے گی۔ '
مولانا فضل الرحمن کی کوششوں سے متعلق خیلالات کا اظہار کرتے ہوئے ایم ضیا الدین نے کہا: 'مولانا صاحب لیڈ رول چاہتے ہیں۔ وہ حزب اختلاف کی رہنمائی کے خواہش مند ہیں۔ جبکہ دوسری جماعتیں اس کے لیے تیار نہیں ہو سکتیں۔'
اس سلسلے میں انہوں نے 2002 کے انتخابات کے نتیجے میں متحدہ مجلس عمل کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تب مولانا صاحب وزارت عظمیٰ کے شدید خواہش مند تھے۔
مظہر عباس کا خیال تھا کہ مولانا عمران خان کی حکومت کو زیادہ وقت نہیں دینا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں حکومت کو جتنا وقت ملے گا وہ مضبوط ہوتی چلی جائے گی۔
مارچ میں تحریک انصاف کو سینٹ میں بھی اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ اور پھر وہ کوئی بھی قانون سازی آسانی سے کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ مولانا سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کے مضبوط ہونے سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب بھی حزب اختلاف کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں پولیٹیکل سائنس کے استاد پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ جمہوری معاشروں میں حزب اختلاف قانون سازی میں حکومت کی مدد کرتی ہے۔ اور قانون سازی کے عمل کو عوام دوست بنانے کے لیے اپنی سفارشات پیش کرتی ہے۔
ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں ہمیشہ سے حزب اختلاف حکومت اور ریاست کی دشمن کی شکل میں سامنے آئی ہے اور حکومت کی ہر اچھی بری پالیسی کی مخالفت اپنا فرض عین سمجھ لیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حزب اختلاف میں شامل جماعتیں بھی تقریباً اسی طرح کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔
پروفیسر رسول کا کہنا تھا کہ بجائے مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی کے حزب اختلاف کو عوام دوست قانون اور پالیسی سازی میں حکومت کی مدد کرنا چاہیے جس سے فائدہ صرف پاکستان کی عوام کو ہو گا۔