کراچی میں جمعرات کو ریکارڈ توڑ بارشوں کے بعد پیر کی صبح تک کراچی کے مہنگے رہائشی علاقے ڈیفنس کے رہائیشیوں کا کہنا ہے کہ سڑکوں اور مکانوں میں بدبو دار پانی جمع ہے، بجلی غائب ہے، موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ سروسز بند ہیں، پینے کے پانی کی قلت ہے، سیوریج کی لائنیں اوور فلو ہوچکی ہیں اور بھاری بھرکم ٹیکسز کی ادائیگی کے باوجود متعلقہ اداروں کی جانب سے کسی قسم کی مدد نہیں ہے۔
موجودہ صورت حال کے باعث علاقہ مکین قانونی راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ڈیفنس کے علاقے چھوٹا شہباز، اتحاد کمرشل، نشاط، مسلم، راحت، غازی اور بخاری کمرشل کی رہائشی عمارتوں کی بیس منٹس میں آج بھی کئی کئی فٹ پانی جمع ہے۔
ڈیفنس کے فیز چھ، سات اور آٹھ حالیہ بارشوں کے بعد بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جہاں کی سڑکوں پر آج بھی تین سے چار فٹ پانی ہے، جس کے باعث ان علاقوں میں بجلی، پانی، انٹرنیٹ اور فون سروس میسر نہیں اور لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
ڈیفنس کے علاقے فیز آٹھ سے تعلق رکھنے والے محمد فیصل نے اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر، جہاں موبائل نیٹ ورک کے بمشکل سگنلز آر ہے تھے، مختصر گفتگو میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے علاقے میں پچھلے 90 گھنٹوں سے بجلی نہیں، جس کے باعث مکان میں شدید گھٹن اور گرمی ہے۔
ان کے مکان میں 71 گھنٹوں سے انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی بند ہے۔ بارش کے بعد مکان میں پانی بھرجانے کے باعث انہوں نے جمرات اور جمعے کا پورا دن اپنے مکان کی صفائی میں صرف کیا جس کے باوجود کیچڑ اور گندی بدبو موجود ہے۔ ان کے مکان کے باہر موجود دو سے تین فٹ پانی کی وجہ سے ان کے لیے باہر نکلنا بھی مشکل ہے۔
فیصل کا کہنا تھا کہ 'ہماری مدد کے لیے کوئی بھی نہیں آیا۔ کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن اور ڈی ایچ اے نے ہماری ایک شکایت کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی پانی نکالنے میں ہماری مدد کی۔ بجلی غائب ہونے کے معاملے پر کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ جب تک پانی صاف نہیں ہوگا بجلی بحال نہیں ہوگی۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے کسی بدترین خواب سے کم نہیں۔'
ڈی ایچ اے فیز چھ خیابان حافظ کی رہائشی کنول ملک نے بتایا کہ جمعرات کی بارش کے بعد سے ان کے مکان کی بجلی غائب تھی جو کہ 40 گھنٹوں بعد تھوڑی دیر کے لیے بحال ہوئی لیکن آج صبح سے پھر بجلی بند ہے۔ یہاں تک کہ ان کے جنریٹر بھی اب ہار مان چکے ہیں، بجلی بحال ہونے کے باوجودغیر متوازن ولٹیج کے باعث شارٹ سرکٹ ہوگیا۔
'دو دنوں تک ہمارے کچن، بیسمنٹ، مین حال میں ایک سے دو فٹ پانی کھڑا تھا۔ کون سوچ سکتا تھا کہ اتنے مہنگے اور ماڈرن علاقے کے مکانات اور سڑکوں میں اس طرح پانی بھر جائے گا اور علاقہ مکینوں کو اس مشکل کے وقت میں کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن یا ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی کوئی مدد نہیں ملے گی۔'
ڈی ایچ اے میں کون سے اور کتنے ٹیکسز لیے جاتے ہیں؟
ڈی ایچ اے میں رہائشیوں سے چار قسم کے ٹیکسز وصول کیے جاتے ہیں۔ یہ جاننے سے پہلے سمجھنا ضروری ہے کہ annual rental value یعنی مکان کے کرائے کی سالانہ قیمت کیا ہے؟
مکان کے کرائے کی سالانہ قیمت کا مطلب وہ کرایہ ہے جو آپ کے مکان کے عوض عام طور لیا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ رقم واقعی اس کرائے کے برابر ہو ،جسےآپ کے کرائے دار آپ کو ادا کر رہے ہیں۔
اس رقم کا اندازہ یوں لگایا جاتا ہے کہ آپ کے مکان جیسے باقی مکانوں کی اس وقت مارکیٹ ویلیو کیاہے۔ ڈیفنس کے رہائشیوں سے یہ ٹیکسز وصول کیے جاتے ہیں۔
۔ پراپرٹی ٹیکس: جو سالانہ ادا کیا جاتا ہے اور مکان کے کرائے کی سالانہ قیمت کا 12.5 فیصد ہوتا ہے۔
۔ غیر منقولہ جائیداد کی منتقلی کی ٹیکس: یہ ٹیکس پراپرٹی کی کل قیمت کا دو فیصد ہوتا ہے۔
۔ پانی کا ٹیکس: یہ ٹیکس کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے مقرر کردہ ریٹس کے تحت ادا کیا جاتا ہے۔
۔ کنزروینسی ٹیکس: یہ ٹیکس علاقے کی دیکھ بھال اور صاف صفائی کے لیے علاقہ مکینوں سے لیا جاتا ہے۔ ڈیفنس کے رہائشیوں سے کنزروینسی ٹیکس کی مد میں مکان کے کرائے کی سالانہ قیمت کا چار فیصد لیا جاتا ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے خلاف قانونی کارروائی
ڈیفنس کے رہائشیوں نے فیس بک پر Petition against DHA & CBC نامی گروپ بنایا ہے جس میں پچھلے دو دنوں میں چھ ہزار سے زائد افراد شامل ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ واٹس ایپ پر دو گروپس موجود میں جن میں متعلقہ اداروں کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
اب تک کی معلومات کے مطابق رہائشیوں نے تین پٹیشنز دائر کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے جس میں 'امین بندوکدا اینڈ کو'، 'محسن شاہوانی اینڈ کو' اور 'پیرزادہ لا فرم' کی جانب سے ان کی نمائندگی کی جا سکتی ہے۔
'امین بندوکدا اینڈ کو' کے بانی اور سندھ ہائی کورٹ کے وکیل امین بندوکدا نے اپنی پٹیشن کے حوالے سےبتایا کہ ' ڈیفنس کے رہائشیوں نے ان سےڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کےلیے رابطہ کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بھاری بھرکم ٹیکسز جمع کرنے کے باوجود ان اداروں نے رہائشیوں کو بہتر انفراسٹرکچر فراہم نہیں کیا۔'
سندھ ہائی کورٹ کے وکیل امین بندوکے مطابق ممکنہ چھ نکاتی پٹیشن میں مطالبہ کیا جائے گا کہ سی بی سی کے موجودہ اور ماضی کے اکاؤنٹس کا مکمل آڈٹ کیا جائے اور رہائشیوںکو بتایا جائے کہ ان کے ٹیکس کا پیسہ کہاں استعمال ہوا ؟ اسی طرح جواب دیا جائے کہ ڈیفنس کی سڑکوں کے بیچوں بیچ مکمل طور پر غیر فعال نکاسی آب کا سسٹم کیوں بنایا گیا اور اس کے لیے بھاری ٹیکس کیوں لیے گئے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پٹیشن میں یہ بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ بارش کے دوران مکانوں میں پانی بھرنے والے متاثرین کے نقصان کا ازالہ کیا جائے، ٹوٹی سڑکیں، نکاسی آب اور سیوریج کی لائنیں فوری طور پر درست کی جائیں، علاقہ مکینوں کو صاف پینے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا جائے۔
دوسری جانب علاقہ مکینوں نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے دفتر کے باہر احتجاج کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔
اس پوری صورت حال کے حوالے سےانڈپینڈنٹ اردو نے کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
ضلع جنوبی این اے 247 سے پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی عام انتخابات میں منتخب ہوئے تھے۔ تاہم صدر مملکت کے فرائض سنبھالنے کے بعد اس حلقے میں پی ٹی آئی کے ایم این اے آفتاب صدیقی نے ان کی جگہ لی۔
آفتاب صدیقی کا ڈیفنس کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے کہنا تھا کہ 'پورا ڈیفنس پچھلے تین دنوں سے ڈوبا ہوا ہے۔ یہ نااہلی کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن اور ڈی ایچ اے کی ہے۔
'میں پچھلے 24 سالوں سے اس علاقے کا رہائشی ہوں لیکن اس سے پہلے یہاں کبھی تین دنوں تک پانی کھڑا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کا نکاسی آب اور تمام برساتی نالوں کا نظام خراب ہے۔ دنیا میں کہیں بھی روڈ کے درمیان برساتی نالے نہیں بنائے جاتے جو کہ یہاں بنائے گئے۔ سی بی سی کا ایڈمنسٹریٹر پچھلے دو دنوں سے غائب ہیں۔ ہم ان سے حساب لیں گے اور ان اداروں کو ہر فورم پر چیلنج کریں گے۔'
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک وڈیو میں جب ایک شہری نے آفتاب صدیقی سے پوچھا کہ 'یہ علاقہ تو پاکستان آرمی چلاتی ہے، آپ ان پر کیسے تنقید کریں گے؟ انہیں کیسے جواب دہ کریں گے؟' اس پر آفتاب صدیقی نے کہا کہ 'بات فوج کی نہیں بلکہ ان اداروں کی ہے جو اس علاقے کا نظام چلاتے ہیں اور وہ ڈی ایچ اور سی بی سی ہیں۔ ہم ان کے خلاف سخت ایکشن لیں گے۔'
وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ سندھ حکومت نے ہفتے کی رات دو بجے ڈیفنس کے علاقے خیابان سحر میں بڑے پانی کے پمپ لگائے تاکہ نکاسی آب کا کام شروع ہو سکے۔