سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات سے متعلق ذرائع ابلاغ میں ہونے والی قیاس آرائیوں کو پاکستانی قیادت نے انتہائی سلیقے سے دو ٹوک انداز میں مسترد کیا ہے۔
اس ضمن میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اپنے متنازعہ بیان کی وضاحت، وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس وضاحت کی توثیق اور بعد ازاں پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے فوجی مقاصد کی خاطر کیے گئے دورہ ریاض نے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان غیر معمولی قریبی تعلقات کو مزید مضبوط بنا کر ثابت کیا ہے یہ تعلقات وقتی جوار بھاٹے کے بعد جلد اپنی اصلی حالت میں واپس آنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تاہم یہ امر واضح ہے کہ دشمن قوتوں نے ایک منظم طریقے سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی۔
اس کا آغاز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اسلامی تعاون کی تنظیم ’او آئی سی‘ کے کشمیر پر کردار سے متعلق تنقیدی بیان کو غیرمعمولی ہوا دیتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ریاض اور اسلام آباد کی راہیں جدا ہو گئی ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کی معاشی امداد سے انکار کا خود ساختہ پراپیگینڈا گھڑ کر اضافی جواز تراشا گیا۔
جنرل باجوہ کے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق سعودی عرب آمد کو غلط انداز میں ’ڈیمج کنڑول‘ کی کوشش بنا کر پیش کیا گیا۔ پاکستانی فوج کے سربراہ کے قطعی فوجی مقاصد کے لیے دورہ ریاض میں ان کی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے بغیر واپسی کو ’شاہی دھتکار‘ سے تعبیر کیا گیا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خود ہی یقین دہانی کراتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ کشمیر پر سعودی عرب کے موقف میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی یا سعودی عرب نے پاکستان کو دیا جانے والا قرضہ واپس کرنے کا کہتے ہوئے تیل سپلائی بند کر دی ہے۔ ’یہ سب باتیں قیاس آرائیاں ہیں۔‘
شاہ محمود قریشی کا گذشتہ ہفتے یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ ’ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان اور سعودی عرب کے قلبی تعلقات ہیں جن کا مشترکہ ہدف امن کا فروغ ہے۔‘
پاکستان میں سعودی سفیر نواف سعید احمد المالکی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے حالیہ دنوں میں ملاقات کر رہے ہیں (پی آئی ڈی)
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اسی روز ’حوثی ملیشیا کے سعودی عرب پر ڈرون اور میزائل حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت‘ کرتے ہوئے فوری طور پر انہیں بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان، سعودی عرب کی سالمیت اور علاقائی استحکام کو خطرات سے دوچار کرنے والے ایسے اقدامات پر مملکت کو اپنی مکمل حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔‘
شاہ محمود قریشی نے گذشتہ ماہ کے اوائل میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’سعودی عرب، پاکستانیوں کے احساسات اور امنگوں کا اعتراف کرتا ہے‘، حتی کہ اگست 21 کو اپنے دورہ چین کے موقع پر ان کا یہ بیان سامنے آیا کہ ’دونوں برادر ملکوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ اچھے رہے اور مستقبل میں بھی اچھے رہیں گے۔‘
پاکستانی وزیر خارجہ پہلے سے طے شدہ مصروفیت کی روشنی میں پاکستان اور چین کے درمیان سٹرٹیجک مذاکرات کے دوسرے دور میں شرکت کے لیے بیجنگ میں تھے۔ اس کے باوجود مخصوص ذرائع ابلاغ میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری رہا جن میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ سعودی عرب کی طرف اقتصادی تعاون سے انکار کے بعد چین، پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے آ رہا ہے۔
جنرل باجوہ کے دورہ سعودی عرب کے ایک ہی روز بعد وزیر اعظم عمران خان نے بھی بروقت اقدام کرتے ہوئے پاکستان ۔ سعودی عرب تعلقات میں تناؤ سے متعلق قیاس آرائیوں کو ’قطعی طور پر بےبنیاد‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ بالآخر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے چھوٹے بھائی اور نائب وزیر دفاع شہزاہ خالد بن سلمان نے قیاس آرائیاں پھیلانے والوں کو اپنی اس ٹویٹ کے ذریعے جواب دیا: ’اپنے بھائی پاکستانی فوج کے چیف آف سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے میری ملاقات ہوئی۔ ہم نے دو طرفہ تعلقات، فوجی تعاون اور خطے کی سکیورٹی محفوظ بنانے سے متعلق اپنے مشترکہ ہدف پر تبادلہ خیال کیا۔‘
Met today with my brother, H.E. General Qamar Bajwa, Pakistan's Chief of Army Staff. We discussed bilateral relations, military cooperation, and our common vision for preserving regional security. pic.twitter.com/PeDRCErx0i
— Khalid bin Salman خالد بن سلمان (@kbsalsaud) August 17, 2020
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دیرینہ دفاعی تعلقات 1982 کو طے پانے والے باہمی سکیورٹی تعاون معاہدے کی روشنی میں استوار ہیں۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان، مملکت کو فوجی تربیت اور دفاعی پیداواری صلاحیت کے ضمن میں معاونت فراہم کرتا ہے۔ پاکستانی فوجی دستے، سعودی عرب میں تربیتی اور مشاورتی امور کی انجام دہی کے لیے تعینات ہیں۔ پاکستان فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف اسلامی ملکوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاض میں تشکیل دیے گئے 41 رکنی اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ ہیں، جو دونوں ملکوں کے قریبی فوجی تعاون کی عکاسی کرتا ہے۔ جنرل باجوہ کے حالیہ دورہ ریاض سے دونوں ملکوں کے عوام کی جانب سے سکیورٹی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی باہمی کوششوں کی تائید ہوتی ہے۔
دونوں ملکوں کے باہمی فوجی روابط کی طرح عوامی سطح پر تعلقات بھی تمام شک وشبے سے بالا تر ہیں۔ لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں اور لاکھوں فرزندان توحید ہر سال مکہ اور مدینہ اظہار عقیدت کے لیے سفر اختیار کرتے ہیں۔
میں پاکستان میں دس برس سعودی عرب کے سفیر کے طور پر خدمات سرانجام دے چکا ہوں۔ میں فخریہ دعویٰ کرتا ہوں کہ مسلم امت اور سعودی عرب کے لیے پاکستانی عوام کی محبت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان ۔ سعودی عرب تعلقات سبوتاژ کرنے کی حالیہ سازش سے سبق ملتا ہے کہ ہم ان تعلقات کا سیاسی بیانیہ ایسے ترتیب دیں جو دونوں ملکوں کے عوام کی امنگوں اور دیرپا دفاعی تعاون سے میل کھاتا ہو۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان بڑھتا ہوا سیاسی تعاون باہمی طور پر مربوط علاقائی پالیسیاں اور حکمت عملی تشکیل دینے کا تقاضہ کرتا ہے۔ سعودی عرب، پاکستان کو اہم مسلمان ملک سمجھتا ہے۔ میں یہ بات پاکستان سے متعلق اپنے عاجزانہ علم اور وہاں بطور سعودی سفیر کم و بیش دس برس خدمات انجام دینے کے تجربے بنا پر کہہ رہا ہوں۔ پاکستان کو یقینا اس بات کا علم ہے کہ سعودی عرب بہتری کی سمت گامزن ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ نوجوانوں اور تعلیم یافتہ افراد کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
مسلم امت کو درپیش چیلنجوں کے تناظر یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ سعودی عرب کی سوچ کیا ہے اور وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ میں یہاں مملکت کا تاریخی پس منظر مختصرا بیان کرتے ہوئے حالیہ محرکات پر روشنی ڈالوں گا۔
سعودی عرب، امن اور اتحاد کو بنیاد بنا تقریباً نصف صدی تک کر مسلم دنیا کو قیادت فراہم کرتا چلا آیا ہے۔
اس راہ میں بڑے چیلنج سامنے آئے۔ تازہ ترین چیلنج 1979 کو ایران میں آیت اللہ کی بغاوت تھی جس کے نتیجے میں وہاں ایسی حکومت قائم ہوئی جو دوسرے ملکوں میں مبینہ طور پر فرقہ وارانہ عسکریت کے پھیلاؤ کا باعث بنی۔ عرب ملکوں بالخصوص یمن، عراق، شام اور لبنان میں آج اس کے مظاہر نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں بھی بلوچ بغاوت کے پیچھے مبینہ طور پر ایرانی عناصر عدم استحکام پھیلانے کی کارروائیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایران، افغانستان میں بھی ایسا ہی ملتا جلتا کردار ادا کرتا چلا آیا ہے۔ ایران علاقائی استحکام کے بظاہر خلاف سرگرم ہے۔
ہم کیسے فرض کر لیں کہ چین کے ساتھ مبینہ طور پر طے پانے والا متنازعہ معاہدے کے بعد ایران اپنے طور طریقے بدل کر ایک متحد علاقائی دنیا کے باسیوں کے اجتماعی معاشرتی اور معاشی فوائد کے لیے کام کرنا شروع کر دے گا۔
ایران میں کئی دہائیاں پہلے شاہ فیصل بن عبدالعزیز کی قیادت میں سعودی عرب میں اصلاحات کا عمل جاری تھا، تاہم آیت اللہ کی بغاوت سے سب کچھ ختم کر دیا۔ آنے والے وقت میں امت کو فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم سے روکنے کے لیے مملکت کو غیرضروری طور پر خود مصروف رکھنا پڑا۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ویژن 2030 کے ذریعے 2015 سے سعودی عرب میں جدیدیت کے نئے سفر کا آغاز کیا ہے۔ ویژن 2030 کے تحت مملکت میں دور رس نتائج کی حامل معاشرتی اور سیاسی اصلاحات کا آغاز ہوا۔
اس کے نتیجے میں مملکت کا حالیہ قومی بیانیہ نوجوانوں کی تعلیم، خواتین کو بااختیار بنانے اور عوام کو تفریح فراہمی جیسے بنیادی نقاط کے گرد گھومتا ہے۔ سعودی عرب کی معیشت کا انحصار ان دنوں تیل سے حاصل ہونے والی آمدن پر بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ زراعت، صنعت اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں ترقی فی زمانہ سعودی عرب کی قومی ترجیحات ہیں۔ نیوم جیسے ہائی ٹیک نئے شہر بسائے جا رہے ہیں۔
ترقی کی سمت جاری اس عبوری سفر کے بعد سعودی عرب میں معمولی نوعیت کی ملازمتیں کرنے والے پاکستانیوں کو مختلف شعبوں میں ماہرانہ خدمات فراہمی کے ڈھیروں مواقع ملیں گے۔
داخلی اصلاحات سے ہٹ کر سعودی عرب اپنے سرمائے کو مغربی دنیا یا عرب علاقوں سے آگے امید افزا ملکوں بشمول چین، روس، بھارت، پاکستان اور جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی انجمن میں شامل ملکوں تک لے جانا چاہتا ہے۔ سعودی عرب اپنی داخلی اور بین الاقوامی شناخت کی تشکیل کے اس مرحلے پر تلخ تاریخ کی جکڑ بندیوں کو توڑتے ہوئے ویژن 2030 میں بیان کردہ ترقی یافتہ مستقبل کی سمت قدم بڑھانا چاہتا ہے۔
ایران کے آیت اللہ اسلامی اتحاد اور سعودی عرب کی ترقی کو سبوتاژ کرنے کے لیے شاید اکیلے کافی نہ تھے کہ حالیہ برسوں میں ترکی کے رجب طیب ایردوغان بزعم خود سنی مسلمانوں کے رہنما کے طور پر سامنے آ گئے۔ وہ اپنے عوام کی جلتی چتا اور پڑوسی ملک شام کے باسیوں پر ڈھائے جانے ظلم کے پہاڑ پر عثمانیوں کے عہد زوال کا دوبارہ احیا چاہتے ہیں۔
اس کے لیے رجب طیب ایردوغآن نے حال ہی میں ایران اور قطر سے بھی ہاتھ ملایا ہے۔ انہوں نے ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد کو ساتھ ملا کر گذشتہ برس کوالالمپور میں چنیدہ اسلامی ملکوں کا اجلاس بلایا، تاہم پاکستان نے عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔
اجلاس کا مقصد مسلم امت کو تقسیم کر کے جدہ میں قائم مسلم دنیا کی سب بڑی نمائندہ اسلامی تعاون کی تنظیم کا متبادل سامنے لانا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ الجزیرہ اور ٹی آر ٹی ورلڈ کے ملت کو تقسیم کرنے کے حربے ناکافی ہو گئے تھے اسی لیے اب مسلم دنیا کے دلدر دور کرنے کی آڑ میں ’گلوبل ٹی وی‘ بنانے کی باتیں سامنے آنے لگیں ہیں۔
اسلامی دنیا میں سعودی عرب کی ساکھ متاثر کرنے کی سازش خلیجی ملک قطر کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی۔ قطر طاقتور علاقائی تنظیم خلیج تعاون کونسل ’جی سی سی‘ کا رکن ہے۔ جی سی سی کی 1981 میں تشکیل کا مقصد رکن ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے بچتے ہوئے ایرانی خطرے کا مقابلہ کرنا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران جی سی سی کے رکن ملکوں کی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشت گرد قرار دی جانے والی انجمنوں کا سہارا لینے کی مبینہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایسے میں دوحہ کا تہران سے دوستی کا ہاتھ ملانا انتہائی عجیب بات لگتی ہے!
سعودی عرب اور متعدد دوسرے عرب ملکوں کے پاس 2017 میں قطر کے بائیکاٹ کے سوا کوئی دوسرا آپشن باقی نہیں بچا تھا۔ ترکی اور ایران جیسی غیر عرب قیادت سے راہ ورسم بنانا چھوڑ کر قطر کے رہنما ہمسایہ عرب ملکوں کے ساتھ امن اور یگانگت سے رہنا شروع کر دیں تو پیدا ہونے والا بحران اپنے آپ ختم ہو جائے۔
اب تک بیان کردہ سیاسی اور جغرافیائی حقائق یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ امت مسلمہ کے امن اور اتحاد کو داخلی طور پر کون سے خطرات لاحق ہیں۔ درپیش چیلنجوں سے آگاہ رہنے کے لیے ان کی نشاندہی ضروری تھی تاکہ اتحاد کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا جا سکے۔
ایک نہ ایک دن مسلمانوں کی تقسیم کی سازش رچانے والے اپنے انجام سے دوچار ہوں گے۔ مکہ اور مدینہ جیسے مقامات مقدسہ تہران یا استنبول نہیں۔ دنیا کے اربوں مسلمان کعبہ کی سمت منہ کر کے دن میں پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ سعودی عرب پر ہی صرف اور صرف اللہ کا انعام ہے۔
اسلامی عقیدہ دراصل پاکستانی اور سعودی ثقافت میں رچا بسا ہوا ہے۔ اس لیے دونوں ملکوں کو اپنی دوطرفہ اور علاقائی پالیسیاں اور حکمت عملی انتہائی چابک دستی سے تشکیل دینی چاہیں تاکہ ان میں اختلافات پیدا کرنے والی دشمن قوتیں ناکامی سے دوچار ہوں۔
حالیہ بحران سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ حساس موضوعات پر 'پبلک ڈپلومیسی' سے گریز کیا جائے تاکہ پاکستان اور سعودی عرب کی تزویراتی شراکت کے لیے ضرر رساں مخصوص مفادات کو عمومی ایجنڈے پر حاوی ہونے کا موقع نہ مل سکے۔ یہ مخصوص مفادات عوام کی بجائے متعلقہ حکومتوں یا ملکوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ عوام کے مفادات کا تحفظ اور خوشحالی ہر مسلمان کا مفاد ہے۔
تعلقات بحالی کے بعد معاشی محاذ پر تیزی سے ترقی ہونی چاہیے۔ دفاعی تعاون بڑھانے اور حالیہ اقتصادی حمایت کو برقرار رکھتے ہوئے سعودی عرب، پاکستان کو یہ یقین دہانی ضرور کرائے کہ ملک کی طویل المیعاد اقتصادی ترقی کے لیے باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کی صورت میں اسلام آباد کے لیے سعودی حمایت جاری رہے گی۔
پاکستان کو سعودی عرب میں خدمات سرانجام دینے والی ورک فورس کی صلاحیتوں میں تنوع کے لیے کام کرنا ہو گا تاکہ وہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030 کو روبعمل لانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
مختصرا یہ کہ سیاسی تعلقات محفوظ اور سبک رفتار طریقے سے آگے بڑھ رہے ہوں تو ایسے میں معاشی اور دوسرے شعبوں میں تعاون بنیادی حقیقت بن جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر علی العواد العسیری سعودی عرب کے سابق سینیئر سفارت کار ہیں۔ آپ 2001-2009 کے دوران پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر رہے۔ ڈاکٹر العسیری نے بیروت عرب یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ نیز آپ ’Combating Terrorism: Saudi Arabia’s Role in اور The War on Terror‘ کے نام سے کتاب کے مصنف بھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔