میں کچھ چیزوں پر تواتر سے زور دیتا رہا ہوں۔ ایک تو یہ کہ ہم ایک قبائلی معاشرے میں رہتے ہیں جہاں آئین اور قانون قبائل کے سامنے بےبس نظر آتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جس کی اشرافیہ اس ملک کو اٹھارویں صدی کے سیاسی نظام کے تحت چلانا چاہتی ہے جبکہ عوام اکیسویں صدی میں پہنچ چکے ہیں۔
یہی وہ کشمکش ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے۔ جنرل عاصم باجوہ کے بارے میں خبروں نے ان دونوں کی ایک دفعہ پھر تصدیق کر دی ہے۔ یہ بات آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
اس تحریر کو آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
جنرل عاصم باجوہ کے بارے میں جب خبر سامنے آئی تو انہوں نے اسے رد کر دیا۔ مگر اب جو جواب انہوں نے دیا ہے اس سے یہ بات واضح ہے کہ انہوں نے خود اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ جون سے پہلے ان کی بیوی ان کاروباروں میں شراکت دار تھیں اور بچوں کے امریکہ میں مکان بھی تھے۔
انہوں نے اعتراض اس بات پر کیا ہے کہ احمد نورانی نے تخمینہ غلط لگایا ہے اور رقم اس سے بہت کم ہے جو بتائی گئی ہے۔ مگر انہوں نے جو جواب دیا ہے اس میں ان سوالوں کے جوابات نہیں ہیں کہ دوران ملازمت انہیں اس طرح کے کاروبار میں شراکت کی کیا ضرورت تھی؟ دوسرا یہ کہ کیا انہوں نے اپنے ادارے کو اس بارے میں آگاہ کیا تھا؟
امید ہے کہ ادارہ بھی اس بات کا جواب دے گا کہ اہم عہدوں پر موجود لوگوں کے کاروباری معاملات پر ان کی نظر ہے یا نہیں؟
جنرل عاصم باجوہ کے معاملے میں اب تک کا تاثر یہ ہے کہ ادارے کو معلوم نہیں تھا۔ جنرل صاحب نے جو جواب دیا ہے اس سے کئی درجن اور سوالات پیدا ہو گئے ہیں جس کا جواب کیا کوئی ان سے نہیں مانگے گا؟ ہماری ماضی کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کے اس قبیلے سے سوالات کرنے والوں کو ملک کا غدار اور دشمن کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے۔
کچھ سابق جنرل ٹی وی ٹاک شوز میں جنرل عاصم کا دفاع کرتے رہے اور یہ تاثر بھی دیتے رہے کہ یہ سی پیک کے خلاف سازش ہے۔ یعنی ان جنریلوں کا خیال ہے کہ ہماری طرح چین بھی سو رہا ہے اور انہیں نہیں معلوم کہ ہماری سی پیک اتھارٹی کے سربراہ امریکہ میں سرمایہ دار ہیں۔ ہم صرف اپنے آپ کو بیوقوف بناتے ہیں، دنیا کو ہمارے بارے میں سب معلوم ہے۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
جنرل عاصم باجوہ نے وزیراعظم کے مشیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا مگر سی پیک کا عہدہ اپنے پاس رکھا ہے۔ کیوں؟ ادھر پی ٹی آئی کی سماجی ویب سائٹیں چلانے والے تاثر دے رہے ہیں کہ وزیراعظم مشیر کے عہدے سے استعفیٰ بھی قبول نہیں کریں گے۔
ہمارے میڈیا کی آزادی کا یہ حال ہے کہ احمد نورانی کی رپورٹ پر چپ کا روزہ رکھ لیا مگر جنرل عاصم باجوہ کے جواب کو سب نے بڑھ چڑھ کر دکھایا۔ عوام کا یہ تو حق بنتا ہے کہ ان سے پوچھیں بھئی آپ جنرل صاحب کس رپورٹ کا جواب دے رہے ہیں جو پورے ملک میں کہیں نہیں چھپی؟ اگر یہ خبر اہم تھی تو عوام کو کیوں نہ بتائی گئی اور اگر اہم نہیں تھی تو اس کا جواب عوام کو دینے کی کیا ضرورت تھی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حقیقت یہ ہے کہ میڈیا کے مالکان اور میڈیا قبیلے کے طور پر جانتا ہے کہ کسی طاقتور قبیلے سے لڑائی نہیں کرنی۔ میڈیا مالکان کے کئی سو ارب رپوں کے ٹیکس واجب الادا ہیں اور جب بھی وہ طاقتور قبیلے کے خلاف بات کرتے ہیں تو اس رقم کا مطالبہ کر دیا جاتا ہے، یا پھر سرکاری اشتہار ملنا بند ہو جاتے ہیں۔ ان مالکان کا فلسفہ یہی ہے کہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے اور خبر وہی اچھی جو ان کے گلشن کو اجاڑ نہ دے۔ کسی بڑے میڈیا کمپنی کا مالک اگر نیب کی جیل میں ہے تو وہ قبائلی جنگ کا شکار ہے مگر عوام اس کے حق میں بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔
ان تمام قبیلوں میں سب سے کمزور قبیلہ عوام ہے جو اس ملک کا 99 فیصد ہے۔ فوجی جوانوں کی شہادت پر یہی عوام نوحہ کرتے ہیں۔ صحافی جب اغوا ہوتا ہے تو یہی عوام آزادی اظہار کے علم بردار بن جاتے ہیں اور بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مگر یہی صحافی فوجی قبیلے کا جواب تو چھاپتے ہیں اور احمد نورانی کی خبر کو رد کر دیتے ہیں۔ ججوں کی آزادی کے لیے یہ قوم کئی درجن جانوں کا نظرانہ پیش کرتی ہے مگر یہی جج قبیلہ نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لا کو جائز قرار دے دیتے ہیں۔ بیوروکریسی عوام کے ٹیکس سے اپنے گھر کا خرچ چلاتی ہے مگر عوام سے رویہ یہ ہے کہ وہ حاکم ہیں اور عوام محکوم۔
یہ ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا جب تک قبائلی نظام کو ختم کر کے آئین اور قانون کا برابری کی بنیاد پر نفاذ نہ ہو۔
پچھلے ڈیڑھ سال سے ہم نئی عوامی جمہوریہ کے لیے قومی سیاسی مذاکرات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب مسلم لیگ ن نے بھی میثاق پاکستان کی بات شروع کی ہے۔ ماضی میں ان اشرافیہ کی پارٹیوں نے جو بھی میثاق بنائے وہ صرف اپنے قبائلی مفاد کے لیے تھے اور عوام محروم اور محکوم ہی رہے۔ ان کے ماضی کے غلط فیصلے دیکھ کر میں تو ان پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں اسی لیے اصرار کر رہا ہوں وہ مذاکراتی میز قبول نہیں جس پر ہم بھی موجود نہ ہوں۔
عجیب بات ہے کہ ان کے ظلم کے باوجود ہم انہیں میز پر لانا چاہتے ہیں مگر یہ عوام کی آواز کو میز پر اپنے ساتھ بٹھانے سے ڈرتے ہیں۔