پاکستان کے ایک چڑیا گھر میں خوفناک حالات میں تنہا رہنے والے ایک ہاتھی کو آخرکار بہتر زندگی کا موقع مل رہا ہے۔
یہ بات ہفتے کو اس جانور کی فلاح کے لیے مہم چلانے والے گروپ نے بتائی۔
اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر میں گذشتہ 30 سالوں سے زیادہ نامساعد حالات میں زندگی گزارنے والے ہاتھی ’کاون‘ کو جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کی جانب سے ’دنیا کا سب سے تنہا ہاتھی‘ قرار دیا گیا ہے اور اسے بہتر جگہ منتقل کرنے کے لیے امریکی گلوکارہ چیر سمیت مہم چلانے والے چار سالوں سے لابنگ کر رہے ہیں۔
جانوروں کی فلاح کے لیے مہم چلانے والے گروپ ’فور پاز‘ کے ترجمان مارٹن بیوئر نے کہا ہے کہ کاون کو بالآخر سفر کرنے کے لیے طبی طور پر موزوں قرار دے دیا گیا ہے اور زیادہ امکان ہے کہ اسے کمبوڈیا میں جانوروں کی پناہ گاہ منتقل کیا جائے گا جہاں اسے دوسرے ہاتھیوں کی صحبت اور بہتر حالات میسر ہوں گے۔
مارٹن نے بتایا کہ ’فور پاز‘ سے وابستہ جنگلی حیات کے ماہرین نے مقامی حکام کی دعوت پر ہاتھی کا طبی معائنہ کیا۔ کاون کا جمعے (4 ستمبر) کو چڑیا گھر میں مکمل طبی معائنہ ہوا جہاں اس میں غذائیت کی کمی کی نشاندہی کی گئی۔
’فور پاز‘ کے ساتھ کام کرنے والے جانوروں کے ڈاکٹر عامر خلیل نے بتایا: ’غذائیت کی کمی اور جسمانی سرگرمی نہ ہونے کی وجہ سے کاون میں موٹاپے کی علامتیں ظاہر تھیں۔ اس کے علاوہ اس کے ناخن پھٹے ہوئے اور خراب ہوچکے ہیں جو اس کے پنجرے کے نامناسب فرش اور عمارت کی ساخت کے باعث ہوئے ہیں۔‘
مرغزار چڑیا گھر کو رواں سال پاکستان کی ہائی کورٹ نے نظام میں غفلت اور ناقص حالات کی بنا پر بند کرنے کا حکم دیا تھا۔
اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کی جانب سے چڑیا گھر میں باقی جانوروں کو بھی محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے ’فور پاز‘ کو مدعو کیا گیا تھا۔ ان جانوروں میں ناچنے والے ریچھوں کا جوڑا بھی شامل تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مارٹن نے ہفتے کو جاری ایک بیان میں کہا: ’بدقسمتی سے ان دو شیروں کو بچانے میں بہت دیر ہوگئی جو جولائی کے آخر میں اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب مقامی کارکنوں نے ان کو منتقلی کے لیے ٹرانسپورٹ کریٹس میں داخل ہونے پر مجبور کرنے کے لیے پنجرے میں آگ لگا دی تھی۔‘
چڑیا گھر کو بند کرنے کے عدالتی فیصلے سے پہلے بھی مرغزار میں جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کی وجہ اسے سخت تنقید کا سامنا تھا۔ حالیہ برسوں میں یہاں سے 500 سے زیادہ جانوروں کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی ہے جبکہ 2016 سے اس چڑیا گھر میں دو درجن سے زیادہ جانور ہلاک ہو چکے ہیں۔
کاون کو منتقل کرنے کے لیے مہم چار سال سے چلائی جا رہی ہے اور مشہور شخصیات، خاص طور پر چیر کی طرف اسے اجاگر کرنے سے اس کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔
کاون کو 1985 میں سری لنکا کی حکومت نے بطور تحفہ پاکستان کو دیا تھا۔ یہ نر ہاتھی ہمیشہ سے اتنا تنہا نہیں تھا اور کئی سالوں تک اپنی مادہ ساتھی ’سہیلی‘ کے ساتھ اس چھوٹی سی چاردیواری میں رہا تھا، تاہم پھر ’سہیلی‘ کی 2012 میں موت واقع ہوگئی تھی۔
معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ مرغزار چڑیا گھر میں تنہائی اور نامناسب حالات میں رہنے والا کاون جذباتی مسائل کے ساتھ ساتھ جسمانی نقصان کا بھی شکار ہوا۔
فور پاز کے ہمراہ اسلام آباد کا دورہ کرنے والے ’لبنز انسٹی ٹیوٹ فار زو اینڈ وائلڈ لائف ریسرچ‘ سے وابستہ ڈاکٹر فرینک گورٹز نے کہا: ’جسمانی اور طرز عمل کی تقویت سے محرومی کے ساتھ ساتھ کسی ساتھی کی عدم موجودگی کے نتیجے میں کاون ناقابل یقین حد تک بور ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ہاتھی نے پہلے ہی روایتی جذباتی رویہ اختیار کر لیا ہے جہاں وہ اپنے سر اور سونڈ کو کئی گھنٹوں تک ادھر ادھر ہلاتا رہتا ہے۔
مارٹن نے کہا: ’طبی معائنے کے بعد تصدیق ہو گئی ہے کہ کاون سفر کرنے کے قابل ہے، جسے اب ممکنہ طور پر کمبوڈیا میں جانوروں کی پناہ گاہ میں منتقل کرنے کے عمل کو حتمی شکل دینے کے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔‘ تاہم ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ہاتھی کا نیا سفر کب شروع ہو سکے گا۔
© The Independent