گذشتہ ہفتے وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے معاشی گڑھ کراچی کے لیے 1100 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا، جسے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان (کے ٹی پی) بھی کہا جارہا ہے۔ وزیر اعظم نے اس اعلان میں یہ بھی ظاہر کیا کہ کراچی کی ترقی کے لیے اس بار وفاق اور سندھ حکومت مل کر کام کریں گے۔
تاہم اس پیکج کے اعلان کے دوسرے دن ہی سندھ اور وفاق میں ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ 1100 ارب روپے کے پیکج میں سے 800 ارب روپے سندھ حکومت کی جانب سے جب کہ باقی 300 ارب روپے وفاق کی جانب سے دیے جائیں گے۔
اس حوالے سے سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کہا: '(وفاقی وزیر) اسد عمر کی جانب سے دیا گیا تاثر غلط ہے کہ 62 فیصد حصہ وفاقی حکومت دے گی، اس لیے پیکج کے متعلق ہمیں وفاق کی نیت پر شک ہے۔'
دوسری جانب وفاقی حکومت کے ترجمان شبلی فراز نے کہا: 'سندھ حکومت کو براہ راست پیسے نہیں دیے جا سکتے کیوں کہ ان پر اعتبار نہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کراچی پیکج کے حوالے سے کنفیوژن پیدا کی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جو پیسہ دیں وہ کراچی میں لگے۔'
اس معاملے پر وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کی باتوں کو من گھڑت قرار دیا۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ مرتضی وہاب 'کراچی پیکج پر مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں۔'
مرتضی کذاب صاحب کراچی پیکج پر مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں-اسد عمر صاحب نے پریس کانفرنس میں تمام حقائق قوم کے سامنے رکھ دئیے۔لیکن یہ مسلسل جھوٹ بول کر کراچی کے معاملے کو خراب کر رہے ہیں۔پہلے ہی مشکل سے کراچی کے شہریوں کی داد رسی ہونے لگی ہے- مراد شاہ ان کو نکیل ڈالیں-جھوٹ سے منع کریں
— Dr. Shahbaz GiLL (@SHABAZGIL) September 7, 2020
جس کے جواب میں مرتضیٰ وہاب نے کہہ ڈالا کہ وہ شہباز گل سے بات کرنا پسند نہیں کرتے۔
ڈاک صاحب!آپ نے ثابت کیا ہے کہ آپ نے بے شرمی اور ہٹ دھرمی کی پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے بہت کوشش کرتا ہوں کہ آپ جیسوں کے منہ نہ لگوں مگر آپ مجبور کرتے ہو،اپنے بڑوں کا نام ڈبونے میں ڈاک صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔چندہ خوروں اور چوروں کو حقیقت کا کیا علم ہوسکتا ہے۔ https://t.co/H7VJdEwKkD
— Murtaza Wahab Siddiqui (@murtazawahab1) September 7, 2020
کراچی پیکج پر وفاق اور سندھ حکومت کے نمائندگان کی لفظی تکرار کے باعث ایک کنفیوژن پیدا ہوگئی ہے کہ آخر اس پیکج میں کس حکومت کا کتنا حصہ ہے؟ کون کتنے پیسے دے گا اور یہ پیسے کن پراجیکٹس پر خرچ ہوں گے؟
اس الجھن کو دور کرنے کے لیے ہم نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سے بات کی۔ انہوں نے ہمیں بتایا: 'کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے تحت پانچ منصوبوں پر کام کیا جائے گا جن پر تقریباً 736 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ ان منصوبوں میں 'کے 4' پراجیکٹ، کراچی سرکلر ریلوے، ریلوے فریٹ کوریڈور، گرین لائن بی آر ٹی پراجیکٹ، ندی نالوں کی صفائی اور ان کے رہائشیوں کی آباد کاری شامل ہے۔'
انہوں نے بتایا : 'اس پلان کے لیے وفاقی حکومت سپریم کورٹ آف پاکستان سے بحریہ ٹاؤن سیٹلمنٹ فنڈ میں سے 125 ارب روپے استعمال کرنے کی درخواست کرے بھی گی۔ ہمیں امید ہے کہ یہ رقم تین سال کی مدت میں ہمیں حاصل ہو جائے گی۔'
اسد عمر کے مطابق: 'اس حساب سے وزیر اعظم کی جناب سے اعلان کردہ 1100 ارب روپے کے پیکج میں حکومت کی جانب سے 611 ارب روپے شامل کیے جارہے ہیں، جب کہ سندھ حکومت کی جانب سے اس پیکج میں تقریباً آدھی رقم یعنی 375 ارب روپے دیے جائیں گے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کا کہنا تھا: 'کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کی میٹینگز کے دوران سندھ حکومت نے کراچی سرکلر ریلوے کی ذمہ داری لینے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ البتہ پاکستان کے آئین کے شیڈیول چار کے دوسرے حصے کے مطابق یہ وفاق کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے بھی وفاقی حکومت کو کراچی سرکلر ریلوے کا کام شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس وجہ سے اس پراجیکٹ پر لگنے والے 300 ارب روپے بھی وفاقی حکومت کی جانب سے ہی دیے جائیں گے۔'
سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے اس سے قبل اسد عمر کے اس دعوے کو غلط قرار دیا تھا اور وفاق کی نیت پر شک ظاہر کیا تھا۔ ان کہا کہنا تھا کہ 'سندھ کے ادارے ہی کراچی کو چلائیں گے۔ اسد عمر نے غلط کہا تھا کراچی پیکج میں سندھ حکومت 750 ارب روپے دے گی۔'
اس بیان کے بارے میں ہم نے مرتضیٰ وہاب سے وضاحت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود ان کی جانب سے جواب نہیں ملا۔
تاہم اس حوالے سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا : 'مرتضیٰ وہاب کراچی پیکج کی ایک میٹنگ میں بھی نہیں بیٹھے، وہ کمیٹی کے رکن بھی نہیں ہیں۔ میں وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی پیکج کے معمالات کی سربراہی کر رہا ہوں، میں ہر میٹنگ میں بیٹھا ہوں۔ میرے آفس کی جانب سے تیار کردہ پریزنٹیشن پر یہ ساری بحث کی جارہی ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے یہ کہا ہوتا تو مجھے حیرانی ہوتی لیکن میں مرتضیٰ وہاب کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتا۔ مجھے نہیں معلوم انہیں کیا بتایا گیا ہے اور کیا نہیں۔'