مشرق وسطیٰ کے لیے اعلیٰ امریکی کمانڈر نے کہا ہے کہ امریکہ نومبر تک عراق اور افغانستان سے ہزاروں فوجی نکال لے گا۔
اس اعلان سے یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کو ’لامتناہی جنگوں‘ سے نکالنے کے اپنے انتخابی وعدے پر عمل درآمد کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
عراق کے دورے کے دوران سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر مرین جنرل فرینک میکینزی نے کہا کہ عراق میں تعینات 5200 فوجیوں میں سے کم و بیش دو ہزار کو واپس بلایا جا رہا ہے جس سے داعش کی جانب سے عسکریت پسندی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکی تربیت یافتہ عراقی سکیورٹی فورسز کی صلاحیت پر ٹرمپ انتظامیہ کے اعتماد کی عکاسی ہوتی ہے۔
بعد ازاں میکینزی نے مزید کہا کہ نومبر تک افغانستان میں بھی امریکی فوجی دستوں کی تعداد کم ہو کر 4500 رہ جائے گی۔
سینٹرل کمانڈ آفس کے مطابق میکینزی نے یہ بیان صحافیوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو کے دوران دیا۔
بیان کے مطابق: ’اکتوبر کے اختتام تک یا ٹائم فریم کے مطابق ہم نومبر میں افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار کی سطح تک لے آئیں گے۔‘
انہوں نے کہا: ’فوجیوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار تک لانے کے باوجود ہم تب بھی ان بنیادی کاموں کو پورا کرنے کے اہل ہوں گے جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہم نے خیر سگالی اور اپنی رضامندی سے یہ ظاہر کرنا ہے کہ ہم اس ملک میں قابض قوت نہیں بننا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمارے سٹریٹجک اور اہم مفادات یہ ہیں کہ ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں امریکہ پر حملہ کرنے کے لیے اس سرزمین کو استعمال نہ کر سکیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ نے جون میں افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کو کم کرکے 8600 کردی تھی اور اس میں مزید کمی کی منصوبہ بندی کی تھی حالانکہ میکینزی نے اس سے پہلے کسی متوقع تعداد کا حوالہ نہیں دیا تھا۔
انہوں نے فوجیوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار کی سطح تک لانے کے لیے کوئی حتمی تاریخ نہیں بتائی۔ انہوں نے کہا کہ ایک مخصوص تاریخ کو ایسا کیا جائے گا تاہم وہ اس تاریخ کا انکشاف نہیں کریں گے۔
امریکہ یہ اقدام اس وقت کر رہا ہے جب صدر ٹرمپ کو مبینہ طور پر امریکی جنگوں میں ہلاک ہونے والوں فوجیوں کے لیے مبینہ طور پر ’لووزرز‘ اور ’سکرز‘ جیسے الفاظ استعمال کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے 'دی اٹلانٹک' میگزین میں چھپنے والے ان الزامات کی تردید کی ہے تاہم اس سے ان کے فوج کے ساتھ تعلقات میں تناؤ ظاہر ہو گیا ہے۔
ٹرمپ کے پینٹاگون کے ساتھ بڑھتے ہوئے اختلافات کے تاثر میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب انہوں نے پیر کو کہا تھا کہ فوج (پینٹاگون) دفاعی کمپنیوں کے منافع کو بڑھانے کے لیے جنگیں لڑنا چاہتی ہے۔
ٹرمپ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ چار سال قبل انتخابی مہم میں امریکی فوج کو غیر ضروری جنگوں سے نکالنے کے اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن سے بدھ کو پوچھا گیا کہ کیا وہ ٹرمپ کے فوجی دستے واپس بلانے کے اقدام سے اتفاق کرتے ہیں؟ جس پر بائیڈن نے جواب دیا: ’اگر داعش سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی ہے تو ہاں میں اتفاق کرتا ہوں۔‘
امریکی فوج 2001 سے افغانستان میں موجود ہے جب اس نے القاعدہ پر نائن الیون حملوں کے جواب میں حملہ کیا تھا۔ امریکہ کی زیر قیادت اس حملے میں طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تھا لیکن اس کے نتیجے میں تنازع توقع سے کہیں زیادہ طویل ہو گیا اور اب امریکہ انہیں طالبان سے امن معاہدہ کرنے کے بعد ملک سے نکلنے کے لیے کوشاں ہے۔