سپریم کورٹ آف پاکستان میں صحافی مطیع اللہ جان نے پیش کیے گئے اپنے جواب میں کہا ہے کہ جس ٹویٹ کے باعث انہیں توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کا مقصد صرف ایک ایسے عدالتی حکم پر مایوسی کا اظہار کرنا تھا جس پر معاشرے کے ایک بڑے طبقے نے مبینہ طور پر تنقید کی تھی۔
مطیع اللہ جان نے بدھ کو سپریم کورٹ میں ان کے خلاف توہین عدالت کے ازخود نوٹس میں اپنا جواب وکیل بابر ستار کے ذریعہ داخل کیا۔
انہوں نے ان کے خلاف ازخود نوٹس کے تحت توہین عدالت کا مقدمہ ختم کرنے کی استدعا کی ہے۔
تحریری جواب میں ان کا موقف تھا کہ ’اگر میری ٹویٹ کو غیر مناسب الفاظ سمجھا جاتا ہے اور معزز ججوں کے لیے تکلیف کا باعث بنی تو مجھے اس پر افسوس ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلے پر کسی کی ایماندارانہ اور حقیقی رائے یا ردعمل کا اظہار جس کا پہلے ہی اعلان ہوچکا ہو کا توہین آمیز سلوک کے بجائے اس کی صداقت اور سچائی کی تعریف کی جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ مطیع اللہ جان نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف کرپشن ریفرنس کی سماعت کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے فیصلہ کے بعد 14 جولائی کو ایک ٹویٹ کی تھی جس کا چیف جسٹس گلزار احمد نے اگلے ہی روز از خود نوٹس لیتے ہوئے توہین عدالت مقدمہ کی سماعت کا حکم دیا تھا۔
مطیع اللہ جان نے 22 جولائی کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونا تھا جبکہ ایک روز قبل انہیں وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر جی سیکس تھری سے مبینہ طور پر اغوا کر لیا گیا تھا۔
مطیع اللہ جان نے 2003 کے توہین عدالت آرڈیننس پر بھی سوالات اٹھائے اور یہ دعویٰ کیا کہ ’آرڈیننس آزادی اظہار رائے کے بنیادی حق کی ضمانت دینے والے آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ‘
جواب میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کو توہین عدالت کے نوٹس کو مسترد کرنا چاہیے کیونکہ یہ اقدام ’بے مثال اور پہلا تاثر دینے والا معاملہ‘ تھا۔
انہوں نے جواب میں دلیل دی کہ نیوز چینلز پر اظہار رائے کرنے پر ریاستی اداروں کی وجہ سے ان سمیت متعدد صحافی اپنا مواد یوٹیوب اور ٹویٹر پر لے گئے ہیں۔
جواب میں کہا گیا کہ آن لائن فورم کی خاصیت یہ ہے کہ اس سے عالمی سطح پر خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے جہاں صحافیوں کی مختلف رائے سامعین کے لیے اپنا راستہ بناتی ہے۔
’آن لائن تقریر پر پابندی لگانے کی کوشش کرنے کا یہ اقدام صحافیوں اور شہریوں سے بڑے پیمانے پر اس موقع کو خیالات کے اس آن لائن بازار میں حصہ لینے سے روکتا ہے۔‘
درخواست گزار نے کہا کہ بڑھتی ہوئی عالمگیریت اور کاروبار کو زندہ رکھنے اور چلانے کے ذرائع کے طور پر سوشل میڈیا کے وسیع پیمانے پر استعمال کے باعث ’عدالت عظمیٰ ان رکاوٹوں کو بھی دھیان میں رکھے جو ان کے توہین کے اختیارات کی وجہ سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جواب میں لکھا گیا ہے کہ ’ہم جس نئی دنیا میں رہتے ہیں اور جن نئی حقیقتوں سے ہمارا سامنا ہے وہ یہ ہیں کہ آن لائن سوشل میڈیا فورمز یہاں موجود ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔‘
اپنے تحریری جواب میں مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جب ایک خاص سوشل میڈیا پوسٹ کو توہین آمیز قرار دیا جائے گا تو کیا عدلیہ کے ایسے احکامات کا نفاذ ممکن ہو سکے گا۔
جواب میں استدعا کی گئی کہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے والے بینچ کو توہین عدالت آرڈیننس، 2003 کے سیکشن 11 (3) کے تحت اس کیس کی سماعت نہیں کرنا چاہیے۔
مطیع اللہ جان کے جواب میں مشورہ دیا گیا ہے کہ معاملے کو توہین عدالت کے آرڈیننس 2003 کے سیکشن 11 کے مطابق نمٹانے کے لیے سینیئر ترین جج کے سامنے رکھا جائے۔
اپنے جواب میں مطیع اللہ جان نے 21 جولائی کو ہونے والے اپنے مبینہ اغوا کے علاوہ ماضی میں ان پر ہونے والے متعدد حملوں کی تفصیلات بھی بتائیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپنی تحریروں اور ٹی وی پروگراموں کے باعث انہیں متعدد مرتبہ نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑا اور یہی وجہ ہے کہ وہ گذشتہ دو تین سال سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خصوصاً یو ٹیوب اور ٹوئٹر کے ذریعہ عوام کو معلومات فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔