پاکستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں مختلف اقوام، تقافت، مذاہب اور زبان سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ خود کو دوسروں سے جدا سمجھتے ہیں۔
جدا سمجھنا فطری ہے لیکن یہاں بات کمتری اور برتری کی حد تک چلی جاتی ہے۔ پیدائشی جو شناخت ہمیں ملتی ہے ہم اسی کو ہی کامل اور تمام دیگر شناخت رکھنے والوں سے لاشعوری طور پر افضل سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ مجموعی طور ہم میں سے کوئی گروہ بھی یہ نہیں چاہتا کہ ہماری اصلاح ہو یا کسی کی تنقید کی صورت میں اصلاح کا جو موقع ملتا ہو اس سے فائدہ حاصل کریں بلکہ الٹا اس اختلاف کو بڑی شدت سے دھتکار دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں فکری انتشار عروج پر ہے۔
میرے خیال میں عدم برداشت کی یہ روش موجودہ انتشار کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔ کوئی گروہ کسی مخالف یا الگ خیالات رکھنے والے گروہ کا نقطہ نظر سننے کو تیار تک نہیں، جس کی وجہ سے معاشرے کا پرامن رہنا ناممکن نظر آتا ہے۔ معاشرے میں امن کا تعلق براہ راست وہاں رہنے والوں کی نفسیات سے ہوتا ہے اور یہاں واقعہ یہ ہے کہ ہر طرف انتہا پسندی کی بلند و بالا عمارتیں کھڑی کی گئیں ہیں۔ جو گروہ مذہب کے نام پر اٹھے ہیں وہ غیرمذہبی رجحان رکھنے والوں کے لیے اپنے دل میں کوئی گوشہ چھوڑنے کو تیار نہیں اور جو سیکولر و لبرل طبقہ اس انتہا پسند سوچ کے خلاف اٹھا تھا بدقسمتی سے وہ خود اسی انتہا پسند نفسیات کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔
مذہب کے ٹھیکیدار اپنے مابین درجن فرقے بنا کر اسی کوشش میں لگے ہیں کہ مخالف فرقے کی برائی اور خود کی اچھائی ثابت کریں۔ جب اپنے ہی فرقے میں کوئی کمزوری نکل آئے تو بجائے اصولی بحث یا دلیل ماننے کے دوسرے فرقے کی برائیاں گننا شروع کر دیتے ہیں مگر خود احتسابی اور حقیقت پسندانہ رویہ اپنانے سے گریز ہی کرتے ہیں۔
عدم برداشت کی ممکنہ وجوہات پر نظر دوڑائیں تو ہمارے بوسیدہ نظام تعلیم سب سے پہلی وجہ نظر آتی ہے۔ یہاں سے نئی نسل کی داغ بیل ڈلتی ہے۔ اسی نظام تعلیم سے نکل کر ہماری نسل کی یہ کلیاں بڑے ہو کر یا تو پھول بن سکتے ہیں یا کانٹے بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے عموماً کانٹے ہی بن پاتے ہیں۔
نظام تعلیم پہلے تو مذہبی یعنی مدرسے اور غیرمذہبی یعنی سکول کالج میں منقسم ہے۔ ہر حصہ پھر مزید کئی طبقاتی تقسیم کا شکار ہو کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے قوم بذات خود ایک ہجوم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ کئی مدرسوں سے نکلے حضرات معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرتے ہیں اور اپنے ہم مذہب مسلمان بھائیوں پر بڑے آسانی سے جہنم کے فتوے لگا دیتے ہیں۔ بات فکری اختلاف تک محدود ہوتی تو ایک بات تھی مگر یہاں تو اختلاف ذاتی لڑائی اور مارنے دھاڑنے تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لیتا۔ ہر دھڑا دوسرے پر اس فدائیت سے حملہ آور ہوتا ہے کہ بس چلے تو مخالف کا وجود تک بھسم کر ڈالے۔
مسئلہ سطحی جذبات پر مبنی معاشرے کا بھی ہے۔ ہم میں سب ایک مخصوص دائرے کے اندر رہ کر کولہو کے بیل کی طرح اس بےبنیاد خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ جہاں پیدا ہوئے وہ سب سے اعلی ترین مسلک، قوم، کلچر یا زبان ہے لہذا ہمیں کسی سے سیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ کسی کے بارے جاننے کی۔ ہم کل ہیں باقی سب جز ہیں اور اگر کسی کو کل بننا ہے تو ہماری مخصوص پہچان کو اپنا کر کے ہی بن سکتے ہیں۔ یعنی جو شناخت ہمیں بائی چانس ملی ہے جس کے حاصل کرنے میں ہماری کوئی کوشش تک نہیں اس کے لیے ہم مرنے مارنے کو تیار ہیں۔
یہی روش ہے جس نے ہمیں نئی چیزیں سیکھنے، نئے کلچرز کا مطالعہ کرنے، مختلف اقوام کو پرکھنے اور دیگر ادیان پر تحقیق کرنے سے روک رکھا ہے۔ بعض دفعہ تو اپنے بزرگوں کی طرف سے ایک نوجوان کو یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ اپنے مخصوص فکر یا مسلک کے علاوہ کسی کا مطالعہ کرنا یا دلائل سننا اخلاقی جرم ہے کیونکہ فلاں فلاں طبقے کے پاس عجیب عجیب دلائل ہیں جس سے ان کا دماغ بھی بھٹک سکتا ہے! یہ رویہ کس قدر قابل رحم ہے یعنی جب آپ اپنے بچے کو اس کے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے تو بجائے جواب ڈھونڈنے میں مدد کرنے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم معاشرے میں اپنے بچوں کے اذہان کو اس قدر مقید کر دیتے ہیں تب ان کی سوچ صرف جذباتیت کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ ان کے اندر تجزیہ کرنے کی حس ختم ہو جاتی ہے اور وہ اپنے مخصوص خول میں اس قدر گرفتار ہو جاتے ہیں کہ پھر کسی دوسرے خیال یا فکر کے آدمی کو بطور انسان بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
میری نظر میں جذباتیت اور کتاب ایک دوسرے کی ضد ہے۔ انسان جتنا پڑھتا ہے اس کی سوچ پر جذبات کا اثر اتنا ہی گھٹتا ہے۔ ایک بچے کی سوچ شروعات میں محض جذبات سے بھری ہوئی ہوتی ہے لیکن آہستہ آہستہ جب اسے مختلف علوم سے واسطہ پڑتا ہے تب جذبات کی بجائے علم و فہم اپنا حجم بڑھانا شروع کر دیتا ہے۔
پھر جو بات سامنے آتی ہے بچہ جذبات کا استعمال کر نے کی جگہ علم کا استعمال شروع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے اس کے جذبات ٹھنڈے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مگر یہاں تو ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ ہماری نئی نسل کتاب اور پڑھائی سے کوسوں دور ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ ہر دوسرا بندہ سطحی جذباتیت کا شکار ہے، کسی اور کی فکر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، اختلاف رائے کو بجائے قبولیت بخشنے کے اسے جلانے گرانے پر اتر آتا ہے جس سے مجموعی طور پر انتہا پسندی کا ماحول جنم لیتا ہے۔ ایسے معاشرے میں لوگوں سے اپنے فکری اختلاف کی جسارت کرنے کے لیے جان جوکھوں میں ڈالنی پڑتی ہے۔
معاشرے کے ساتھ ساتھ ریاست نے بھی جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا ہے۔ ایسا کچھ بھی کرنے کی توفیق نہ ہوئی جس سے معاشرے کے مختلف گروہوں یا طبقوں کے مابین ہم آہنگی بڑھ سکے۔ ریاست ہمیشہ سے انتہا پسند قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر راضی ہوئی یا انہی قوتوں کی موجد ٹھہری، عدم برداشت کی اس روش کو بجائے کم کرنے ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ تقسیم اور حکومت کرو کی پالیسی کو بری طرح استعمال میں لایا گیا اور دوسری طرف سرمایہ داری اور آمریت کے اس نظام میں عوام کو کنٹرول کرنے کا یہ ایک طاقتور ہتھیار ثابت ہوتا رہا اس لیے بجائے اصلاح کی کوشش کرنے ریاست نے ہمیشہ مخصوص مفادات کو عزیز رکھا۔
اگر پچھلے کچھ ہفتوں کی مثالیں اٹھا کر دیکھ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ عدم برداشت کی روش روز بروز بڑھ رہی ہے۔ کچھ ہفتے پہلے ریاست پاکستان نے اسلام آباد میں ہندو برادری کے لیے مندر بنانے کا اعلان کیا جس پر جذباتی پاکستانیوں نے اس قدر شدید احتجاج کیا جس کی ڈر سے حکومت کو اس مندر کی تعمیر کا کام روکنا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حال ہی پشاور ہائی کورٹ میں ایک کم عمر بچے کے ہاتھوں ایک مشتبہ شخص کے قتل کا واقعہ سامنے آیا۔ مقتول پر توہین رسالت الزام کے تحت لمبے عرصے سے کیس چل رہا تھا۔ اسی دن بچے کو ایک مقامی وکیل کی مبینہ مدد سے پستول دے کر ملزم کو کمرہ عدالت میں قتل کروا دیا گیا۔ اس کے بعد پورے ملک میں قاتل کے حق میں مظاہرے ہوئے، رکشوں اور گاڑیوں پر اس کی تصاویر آویزاں کی دی گئیں، جمعہ کی خطابات میں موصوف کو عوامی طور پر خراج تحسین پیش کی گئی اور سوشل میڈیا میں جہاں جہاں اس پر تنقید ہوتی گئی وہاں دگنی اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے گئے۔
میرے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے کچھ مہینوں میں پانچ ایسے واقعات رونما ہوئے جہاں ماں جیسی مقدس ہستی اپنے بیٹوں کے ہاتھوں گھر سے بےدخل کر دی گئی، کسی نے کلہاڑی پر اس کا سر تن سے جدا کیا تو کسی نے گھونسوں سے اس کی حالت غیر کر دی۔ یہ صرف وہ واقعات ہیں جو میڈیا اور تھانے میں رپورٹ ہوئے۔ ان بھیانک واقعات کے پیچھے بھی اختلاف رائے کی ہی وجہ تھی کیونکہ تمام ملزم شادی شدہ تھے اور ساس بہو کی لڑائی تو ہمارے گھروں کی عام سی بات ہے۔
خیبر سابق فاٹا میں کچھ ہفتے پہلے حکومتی شجر کاری مہم کے دوران زمینی تنازعے کے دوران ایک بڑے ہجوم نے لگائے گئے تمام پودے بڑی بےرحمی سے اکھاڑ دئیے، جس پر پورے ملک میں ایک زبردست بھونچال پیدا ہوا۔ یہ ایک معمولی بات تھی جسے افہام و تفہیم سے باآسانی حل کیا جا سکتا تھا مگر اپنی انائیت اور جذباتیت کی وجہ سے ناصرف شجر کاری مہم کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ عوام میں غم و غصہ کی فضا بھی بنا دی گئی۔
اب آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ جذباتیت و سطحیت کی اس فضا کو کیسے ختم کیا جائے؟ سب سے پہلے تو بذات خود یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ عمومی طور پر ہم کسی نہ کسی طرح انتہا پسند ہیں۔ ہم انتہا پسند معاشرے کا حصہ ہیں۔ اس لیے بجائے دوسرے کی انتہا پسندی پر انگلی اٹھانے پہلے خود احتسابی کے عمل سے گزریں، لوگوں کی رائے کو جگہ دینے کی کوشش کریں، اختلاف رائے کو تسلیم کرنے کی عادت ڈالیں، منافرت کی بنیاد پر قوم پرستی اور فرقہ واریت جیسی صفات کو پرکھیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ نان اشوز میں پڑنے سے گریز کریں وہ خواہ کسی بھی لحاظ سے ہو یعنی اگر اس سے قوم یا معاشرے کا فائدہ ہوتا ہے تو اس عمل کا حصہ بنیں بصورت دیگر نظر انداز کرنا ہی سب سے بہترین طریقہ ہے۔
مطالعے کا رجحان بڑھائیں، لائبریری کلچر کو حکومتی اور سماجی بنیادوں پر قائم کرنے کی کوشش کریں۔ امن عامہ، برداشت، ہم آہنگی اور کتب بینی کے حوالے سے مختلف سیمینارز کا انعقاد کریں، فلاحی اداروں اور مقامی حکومتوں کی ترجیحات میں یہ سب شامل کریں البتہ تعلیم کا فروغ ہر لحاظ سے ترجیح ہو کیونکہ عظیم رہنما نیلسن منڈیلا کا ایک مشہور قول ہے ’تعلیم وہ واحد ہتھیار ہے جس کا استعمال کر کے معاشرے کو بدلا جا سکتا ہے۔‘