آپ پہلے اپنی زبان اور محاورے وغیرہ دیکھ لیجیے، پھر بات کرتے ہیں۔ جلدی ہے تو یہ چھ سات لائنیں قضا کر کے سیدھے ان کے نیچے سے پڑھنا شروع کر دیں۔
واہ واہ، کیا نر بچہ ہے!
شیر آدمی ہے بھئی وہ!
تو تو یار چیتا انسان ہے!
مرد اور گھوڑا کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔
مرد کے بچے بنو مرد کے۔
باپ دادا کا نام روشن کرے گا میرا بچہ!
وہاں تو نہ کوئی آدم تھا نہ آدم زاد۔
مرد ذات، مرد میداں، مردانہ، مردانگی، مردانہ چال
جواں مردی۔۔۔
یہ سب لفظ ہم اپنی عام بات چیت میں استعمال کرتے ہیں۔ میرا صرف ایک سوال ہے، لفظ 'زنانہ' کبھی ہم نے تعریف کے لیے استعمال کیوں نہیں کیا اور کیا کوئی جانور ایسا ہے جو عورتوں کے لیے اچھائی بتانے کو ہم استعمال کرتے ہوں؟
جب شادی ہوتی ہے تو بتائیے کہ بارات اتنے باجوں، پٹاخوں اور ایک ہجوم کی شکل میں کیوں دلہن کے دروازے پر پہنچتی ہے؟ بلکہ بعض علاقوں میں تو باقاعدہ کلاشنکوفوں اور بندوقوں سے ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے۔ آپ بیوی بیاہنے جا رہے ہیں یا دشمن ملک فتح کرنا ہے؟ آپ گانے گائیں گے تو ویر میرا گھوڑی چڑھیا ضرور گایا جائے گا، کیوں؟ ویر میدان جنگ کو جاتا ہے یا جہیز سمیت کسی کی بیٹی اٹھانے جا رہا ہے؟
آپ فوم کا اشتہار دیکھ لیں۔ پینتالیس سال سے اشتہاروں میں اپنی بیٹی کی رخصتی کے وقت باپ ایک بغیر چادر والے گدے کے ساتھ کھڑا آنسو بہا کے بیٹی کو شانے سے لگا رہا ہوتا ہے، کیوں؟ بیٹی نے کیا جا کر صرف فوم پہ لیٹنا ہے؟ وہ برتن نہیں دھوئے گی یا کبھی کمرے سے باہر بھی نہیں نکلے گی؟ اور اس فوم پر جو کچھ ہونا ہے کیا اشتہار 'شادی' کا ہے اس لیے کسی بیٹی کے باپ کو اس میں 'فحاشی' آج تک نظر نہیں آئی؟
باتھ روم صاف کرنے والے اشتہاروں میں آج تک جب بھی اچانک کوئی باتھ روم کھول کر کہتا ہے 'آپ کا فلش اتنا گندہ کیوں ہے؟' تو اس وقت کبھی کوئی مرد کیوں نہیں نکلا؟ ہمیشہ خاتون خانہ کیوں سامنے آتی ہیں اور پریشان صورت سے اینکر کو نیلا لیکوئیڈ گراتے دیکھتی رہتی ہیں؟ اس لیے کہ عورت کا تصور تالہ مار کے بستر، گھرداری اور کمزوری سے جوڑا جا چکا ہے۔
لیکن آپ کے لیے یہ سب کچھ نارمل ہے۔ آپ مرد ہوں یا عورت، آپ ان سب چیزوں کو اس لیے قبول کرتے ہیں کیونکہ باپ دادا کے زمانے سے ایسا ہی چلا آ رہا ہے۔
اب اسی اشتہار والے گدے کے معاملے پر آئیں۔ کتنے بھائی جانتے ہیں کہ میریٹل ریپ بھی ایک چیز ہوتی ہے؟ یعنی خاتون چاہے آپ کی بیوی ہوں لیکن اگر وہ راضی نہیں اور آپ ان کے ساتھ 'دل چاہنے' پر کوئی جنسی عمل کرتے ہیں تو وہ بھی ریپ کی ایک قسم ہے؟
اسے بھی چھوڑیں، آپ باہر کہیں کھا رہے ہیں، کہیں بیٹھے ہیں اور آپ کے قریب کوئی جوڑا بیٹھا آہستہ آواز میں تھوڑا رومانٹک ہونے کی کوشش کرتا ہے، کیا آپ بار بار مڑ کے نہیں دیکھتے؟ آپ اکیلے ہوں تو انہیں قریب جا کے ڈسٹرب کرنے کا دل نہیں ہوا کبھی آپ کا؟ شاید کیا بھی ہو۔ مہذب دنیا اسے دوسرے کی پرائیویسی میں گھناؤنی مداخلت سمجھتی ہے۔ لیکن ہمارا تو کلچر ہے!
تو جب ہماری زبان مردوں کی ہے، جانوروں کی ہر اچھی سمجھی جانے والی خصلت مردوں میں ہے، دلہا کا صرف دلہن لے کر آنا ہی میدان جنگ مارنا ہے، فوم کا گدا اور عورت کی شادی لازم ملزوم ہیں، باتھ روم صاف کرنے والے اشتہار میں کبھی گھر کے مرد نے کھڑے ہو کے صفائی نہیں کروائی، میریٹل ریپ کا لفظ کوئی نہیں جانتا، اکیلے بیٹھے جوڑے کا ذلیل ہونا کلچر ہے تو بھائی، پھر ریپ عام کیسے نہیں ہوں گے؟
جب مرد ایک فاتح ہے، شیر ہے، نر ہے، گھوڑا ہے تو وہ جتنا بھی پڑھ لکھ جائے وہ کسی عورت کو اہمیت ہی کیا دے سکتا ہے؟ ہمارا مرد تو وہ ہے جس کی اپنی ماں کے پیروں تلے جنت ہو گی لیکن دوسرے کی ماں کو دل کھول کے فحش گالی دے گا۔ اپنی بہن کے جوڑے تک درزن سیے گی، سامنے والے کی بہن کا رشتہ فوراً جانوروں سے جوڑے گا۔ تو مرد جو ہے وہ طاقت کا ہوا دوسرا نام!
آپ طاقتور اداروں کا سوچیں، طاقتور ملک ذہن میں لائیں، طاقتور بادشاہوں کی بات کریں، طاقتور افسر کو دیکھ لیں، جسے طاقتور ہونے کا احساس ہے اسے من مانی کرنے کی عادت ہو گی۔ وہ باقی مخلوق کو انسان یا کیڑے مکوڑے کچھ بھی سمجھنے کی زحمت نہیں کرے گا۔ اسے صرف اپنا راستہ سیدھا کرنا ہے، اپنا کام نکالنا ہے، جیسے بھی ہو۔
مرد ریپ اس لیے کرتا ہے کیوں کہ سامنے والی مخلوق اس کے لیے صرف 'زنانی' ہوتی ہے۔ وہ بچپن میں اپنی خواہش کی یہ شدت گالیوں میں پوری کرتا ہے، زبان کا مردانہ پن اسے مزید اچکاتا ہے، لونڈیوں اور مفتوحہ خواتین کے قصے اس کا ارادہ اور پکا کرتے ہیں، بستر اور عورت کا تصور اسے بچپن سے ٹی وی گھول کے پلاتا ہے، عورت اس کے لیے اپنے جیسے وجود کی بجائے اپنے جسم کی تسکین کا ایک آلہ لگتی ہے، بس!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کا حل کیا ہے؟ بڑی سادہ سی بات ہے۔ ماں باپ بچپن میں بیٹے کو لڑکیوں سے دور نہ رکھیں، اس کے کھیلوں میں بچیاں شامل ہوں، وہ ان سے بات چیت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اسے احساس ہو کہ یہ جو مخلوق ہے یہ اسی کی طرح سوچتی ہے، اسے تکلیف بھی ہوتی ہے اور وہ بھی اسی طرح آرام کرتی ہے جیسے یہ کرتا ہے۔ لڑکی ذات اس کے لیے اجنبی نہ ہو اور اس کی مرضی کا تصور اس کے لیے کوئی آسمانی چیز نہ ہو۔
بیٹے کو شروع سے جان بوجھ کر تاریخی طور پہ مشہور خواتین کے بارے میں بھی اسی طرح بتایا جائے جیسے مرد رہنماؤں کا بتایا جاتا ہے۔
اسے اردو فارسی ٹائپ تاریخی کتابوں اور بزرگوں کی تحریروں سے دور رکھیں اور کچھ پڑھانا ہے تو وہ جدید چیز پڑھائیں جس کا لکھنے والا مرد عورت کی برابری کو جانتا ہو۔
بیٹے کی ماں کو وہ عزت دیں جو اپنے باس کو دیتے ہیں۔ اسے کوئی چھوٹا موٹا کام یا کاروبار کروائیں تاکہ بچہ گھر میں دیکھے کہ ماں بھی پیسوں، مرضی اور عزت میں باپ جیسی خودکفیل ہے۔
کبھی بچہ گالی دے تو اسے ڈانٹنے کی بجائے صرف یہ پوچھیں کہ بیٹا یہ گالی اسی بندے کے باپ یا بھائی کو آخر کیوں نہیں دیتے؟ بس جواب اسے سوچنے دیں آپ کا اتنا ہی کام ہے۔
کوشش کریں کہ ہندوستانی یا اردو فلموں کی بجائے انگریزی فلمیں دکھائیں، چاہے اسے سمجھ نہ آئے۔ مرد اور عورت کا تصور ان فلموں اور ڈراموں کی وجہ سے ہمارے یہاں اس قدر غلط بن چکا ہے کہ انہیں ٹھیک کرنے کی بجائے نہ دیکھنا بہتر ہے۔
بیٹے کے سامنے دفتر، گھر یا باہر کی خواتین کا مذاق اڑانے سے پرہیز کریں۔
آخری بات یہ کہ بچپن سے اسے طاقتور بننے کی بجائے پراعتماد بنانے کی کوشش کریں۔ وہ جم جائے لیکن سکول کے سٹیج پہ مردوں عورتوں کے سامنے بات کر سکتا ہو۔ وہ کرکٹ کھیلے مگر عید پہ ماں کے لیے چوڑیاں خریدنے وہی جاتا ہو۔ وہ موٹر سائیکل یا گاڑی کی ریسیں لگائے لیکن عورتوں کو دیکھ کے اس کی سواری آہستہ نہ ہوتی ہو۔
اگر وسائل ہیں تو کوشش کیجیے کہ وہ کو ایجوکیشن میں پڑھے۔
یہ کوئی تیر بہدف نسخہ نہیں لیکن اتنا یقین ہے کہ ان تمام مرحلوں سے گزرنے والا بچہ اگر بڑا ہو کے میریٹل ریپ کے مرحلے پر بھی کھڑا ہو گا تو ایک مرتبہ رک کے سوچے گا ضرور، کہ یار جو میرا جسم کہہ رہا ہے وہ ٹھیک ہے یا میرا دماغ مجھے صحیح بات بتا رہا ہے!