پاکستان بھر میں آج (منگل) سے سکولوں، کالجوں اور جامعات کو پبلک ہیلتھ سکیورٹی رولز کے مطابق کھول دیا گیا۔
سکولوں میں نویں اور دسویں جماعتوں کے طلبہ نے آن لائن کلاسز ختم ہونے اور سکول آکر کلاسز لینے پر خوشی کا اظہار تو کیا ہے لیکن ان کا شکوہ ہے کہ انہیں پورے دن گرمی میں ماسک پہن کر بیٹھنا پڑا اور اساتذہ کے ماسک پہننے کی وجہ سے ان کی باتیں بھی سمجھ نہیں آئیں۔
کراچی کے ضلع وسطیٰ کے علاقے بفرزون میں واقع ایثار فاؤنڈیشن سکول کی چیف کوآرڈینیٹر مہ جبین خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں بہت خوشی ہے کہ سات ماہ بعد سکول کھل گئے ہیں، ان کے سکول نے آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری رکھا تھا لیکن انہیں آج طلبہ کو ان کی کلاسز میں دیکھ کر بےحد خوشی ہوئی۔
ایثار فاؤنڈیشن سکول میں بچوں کی حفاظت اور کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سکول انتظامیہ کافی سختی کر رہی ہے۔ طلبہ کا ماسک کے بغیر سکول میں داخلہ منع ہے، داخلی دروازے پر ایک جراثیم کش سپرے والا واک تھرو گیٹ لگا ہوا ہے جبکہ سکول میں اندر آںے سے پہلے بچوں کو اس میں سے گزارا جاتا ہے۔
سکول میں داخل ہوتے ہیں بچوں کے ہاتھ دھلائے جاتے ہیں اور سینیٹائز کیا جاتا ہے۔ کلاسز میں بچوں کو ایک سیٹ چھوڑ کر بٹھایا جاتا ہے اور بچوں کو آپس میں کاپی، پینسل، ربر، شارپنر یہاں تک کہ اپنا لنچ باکس بھی شئیر کرنے کی اجازت نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مہ جبین خان کے مطابق: 'اساتذہ کو سکول کھلنے سے پہلے باقاعدہ ٹریننگ دی گئی تھی، انہیں دوران لیکچر ماسک اتارنے یا بچوں کی کاپیاں ہاتھ میں لے کر چیک کرنے کی بھی اجازت نہیں۔'
تاہم طلبہ کے لیے سات ماہ بعد سکول واپس آنا باعث مسرت تھا۔ 14 سالہ عائشہ اخلاق نے بتایا کہ وہ سکول آنے کے لیے بے حد پرجوش تھیں۔ انہوں نے دو تین دن پہلے ہی اپنی تمام دوستوں سے سکول آنے کا وعدہ لے لیا تھا، کلاسز شروع ہونے سے پہلے انہیں اساتذہ نے تمام احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا۔
عائشہ کا کہنا تھا: 'سکول واپس آنے کی خوشی تو ہے لیکن کلاس میں ماسک پہن کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ مجھے بہت گرمی لگتی ہے اور ماسک اتارنے کا دل چاہتا ہے۔ ہمیں اکثر ٹیچر کی بات بھی سمجھ نہیں آتی کیوں کہ انہوں نے بھی ماسک پہنا ہوا ہوتا ہے۔'