بھارت اور چین کے درمیان متنازع سرحدوں کے باعث بداعتمادی اور تصادم کی طویل تاریخ موجود ہے۔جوہری ہتھیاروں سے مسلح دنیا کی ان دو بڑی قوموں کی مجموعی آبادی ڈھائی ارب سے زیادہ ہے اور یہ کبھی بھی متنازع سرحد لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) کی حد بندی پر متفق نہیں ہوئے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ ایل اے سی دو ہزار 175 میل طویل ہے جب کہ چین کا خیال ہے کہ اس کی لمبائی محض ایک ہزار 242 میل ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات جون میں اس وقت بدترین سطح تک پہنچ گئے تھے جب لداخ کی متنازع سرحد پر ایک خونی تصادم میں 20 بھارتی فوجی مارے گئے۔ یہ چار دہائیوں بعد پہلی بار تھا کہ جب کشیدگی کے باعث سرحد پر کوئی فوجی ہلاک ہوا۔
پورے موسم گرما کے دوران دونوں ممالک کے فوجی حکام اس علاقے میں امن کے قیام کے لیے کوششوں میں مصروف رہے اور بالآخر گذشتہ جمعے کو حکام نے پانچ نکاتی اتفاق رائے اور ایک معاہدے پر پہنچنے کا اعلان کیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقعے پر ماسکو میں بھارت اور چین کے وزرائے خارجہ کی اہم ملاقات ہوئی اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ’سرحدی علاقوں میں موجودہ صورت حال کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں۔‘
ملاقات کے بعد مشترکہ بیانیے میں کہا گیا کہ ’اس لیے انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں اطراف کی سرحدی افواج کو اپنی بات چیت جاری رکھنی چاہیے،علاقے سے جلد دست برداری، مناسب فاصلہ برقرار رکھنا اور تناؤ کو کم کرنا چاہیے۔‘
یہ اچانک سفارتی ہم آہنگی تھوڑی حیرت انگیز ہے۔ اس تناظر میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ ہفتے دونوں ملکوں کی طرف سے یہ دعوے کیے گئے تھے کہ مخالف فوجی ان کے علاقے میں داخل ہو گئے تھے اور اس دوران ایک دوسرے کو خبردار کرنے کے لیے دونوں جانب سے فائرنگ کے الزامات بھی لگائے گئے۔
اگر یہ الزامات واقعی درست ہیں تو یہ اس حساس علاقے میں اسلحے کے استعمال سے متعلق طویل عرصے سے قائم پروٹوکول کی خلاف ورزی ہے۔ مزید برآں جب اس طرح کے تنازعات کی بات کی جاتی ہے تو بیجنگ اپنے موقف سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نئے منصوبوں کے تحت چین کی سرحد کے ساتھ 66 اہم سڑکیں تعمیر کی جائیں گی جب کہ منصوبے میں انتہائی بلندی پر ایک ایئر بیس کو جانے والی سڑک بھی شامل ہے جو مبینہ طور پر دونوں ممالک کے مابین حالیہ جھڑپوں کو بھڑکانے کا باعث بنی ہے۔ ماسکو اجلاس سے پہلے چین کے ایک سرکاری اخبار نے بھارت کو خبردار کیا تھا کہ وہ کبھی بھی چین کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتا۔
’گلوبل ٹائمز‘ نے پانچ ستمبر کے اپنے اداریے میں لکھا: ’ہمیں بھارت کو یہ یاد دلانا چاہیے کہ چین کی قومی طاقت بشمول اس کی فوجی طاقت بھارت کی نسبت بہت مضبوط ہے۔ اگرچہ چین اور بھارت دونوں بڑی طاقتیں ہیں لیکن جب جنگی صلاحیت میں مقابلے کی بات کی جائے گی تو بھارت یقیناً ہار جائے گا۔ اگر ایک بھی سرحدی جنگ شروع ہو جاتی ہے تو بھارت کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔‘
چین مستقل طور پر اپنی طاقت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے لیکن اس حالیہ تصادم کی آگ کو تیل دکھانا عقل مندی کی بات نہیں۔ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں جو لاکھوں جانوں کو تباہ اور باقی دنیا کو بری طرح متاثر کرسکتے ہیں۔ چین کی فوج دنیا کی سب سے بڑی فورس ہو سکتی ہے لیکن ایک ایٹمی ملک کو اس طرح اشتعال دلانا اور دھمکی دینا تشویش ناک امر ہے خاص طور پر جب بھارت کرونا (کورونا) وائرس کے اثرات کا مقابلہ کر رہا ہے اس مہلک بیماری کے بارے میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ چین سے ہی شروع ہوئی تھی۔ اس وبا نے بھارت کی عوام اور پالیسی سازوں کو چین مخالف بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تعلقات اس حد تک متاثر نہ ہوتے اگر چینی حکام نے مئی 2015 میں دورہ چین کے دوران ایل اے سی کی حد بندی کے حوالے سے وزیراعظم مودی کے تجویز کو مسترد نہ کیا ہوتا۔ یقیناً بیجنگ بھارت کو اپنی سرحد کے اطراف انفراسٹرکچر کی ترقی اور تعمیر کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتا جب نئی دہلی نے باضابطہ حدود طے کرنے کی کوشش کی تھی۔
ایٹمی ممالک کے مابین تنازعات کے خیال کو شامل کیے بغیر دنیا پہلے ہی کئی مسائل سے گھیری ہوئی ہے۔ ان دونوں پاور ہاؤسز کے مابین ’پانچ نکاتی اتفاق رائے‘ پر پرامن اور جلد عمل درآمد ہونے سے دنیا کی ایک پریشانی تو ختم ہو سکتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ چین کی غیر قانونی طور پر سرحدیں عبور کرنے کی تاریخ ہے۔ چین کے ساتھ 14 ممالک کی سرحدیں لگتی ہیں جن میں سے ایک بھی ایسا ملک نہیں جس کا چین کے ساتھ علاقائی تنازع سامنے نہ آیا ہو۔ چین نے بھی کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ بار اپنے نقشے تبدیل کیے ہیں۔
میں عالمی وبا اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث پیدا ہونے والی ہنگامی اور نازک صورت حال میں عالمی تسلط کی ضرورت کو سمجھنے میں قاصر ہوں۔ ابھی ہر ملک کا بنیادی مقصد موجودہ وبائی بیماری سے لڑنے میں مدد کے لیے فنڈز اور لیب بنانا ہونا چاہیے اور مزید ہنگامی صورت حال کے تناظر میں مزید تیاریوں کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے سرمایہ کاری کرنا چاہیے۔ اس وقت ایک سرحدی تنازعے پر لڑنے والی دنیا کی دو سب سے بڑی اقوام کا طرز عمل مکمل طور پر غیر منطقی اور پریشان کن ہے۔ اس کے بجائے ان ہمسایہ ممالک کو سٹریٹجک اور معاشی تعلقات پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
© The Independent