ملیشیا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے جب اپنا گمشدہ فون دوبارہ پایا تو اس میں ایک بندر کی سیلفیاں اور ویڈیوز تھیں۔ اس آدمی کا خیال ہے کہ یہ فون اس بندر نے ہی فون چرایا تھا اور اسے فون گھر کے پیچھے واقع جنگل سے ملا۔
زکریاز رودزی کا خیال ہے کہ بندر نے انہیں سوتا پا کر فون اٹھا لیا اور اسے باہر لے گیا۔ جب زکریاز نے فون سے ملنے والی تصویریں اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کیں تو وہ وائرل ہو گئیں۔
تصویروں میں ایک بندر کو کیمرے میں گھورتے دیکھا جا سکتا ہے جو بظاہر اسے کھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ جنگل کے سبزے کی کچھ دھندلی تصویریں بھی ہیں اور پینوراما بنانے کی ایک ناکام کوشش بھی۔
زکریاز کا کہنا ہے کہ جب وہ ہفتے کی صبح جاگے تو انہیں پتہ چلا کہ ان کا فون غائب ہے۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا، ’چوری کے کوئی آثار نہیں تھے۔ میرے ذہن میں ایک ہی بات آئی کہ یہ کوئی جادو ٹونا ہے۔‘
زکریاز جنوبی ریاست جوہور میں کمپیوٹر سائنس کے طالب علم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگلے دن ان کے چچا نے گھر کے قریب ایک بندر دیکھا اور جب انہوں نے فون پر کال کی تو وہ ان کے گھر کے پیچھے ایک پام کے درخت نے نیچے پڑا ملا۔
Something yang korang takkan jumpa setiap abad. Semalam pagi tido bangun bangun tengahari phone hilang. Cari cari satu rumah geledah sana sini semua takde then last last jumpa casing phone je tinggal bawah katil tapi phonenya takde. Sambung bawah. pic.twitter.com/0x54giujnY
— z (@Zackrydz) September 13, 2020
ان کے چچا نے مذاقاً کہا کہ فون کے اندر چور کی تصویر ہو سکتی ہے اور جب زکریاز نے فون کی پکچر گیلری کھولی تو بقول ان کے وہ بندر کی تصویروں سے بھری تھی۔ انہوں نے ٹوئٹر پر تصویریں اور ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’ایک ایسا واقعہ جو صدی میں ایک بار رونما ہوتا ہے۔‘
انہوں نے بعض تصویریں ٹک ٹاک ویڈیو پر بھی شیئر کیں اور بندر کو ’بالوں والا ٹویول‘ قرار دیا، جو جنوب مشرقی ایشیا کے فوک ادب میں ایک زومبی نما بچہ ہوتا ہے اور چوریاں اور شرارتیں کرتا رہتا ہے۔ ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے لکھا، ’ایپل، مجھے ایک اور آئی فون چاہیے کیوں کہ میں اپنا فون بندر کو دے رہا ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ واقعہ عجیب تو ہے مگر پہلا موقع نہیں جب کسی بندر نے سیلفی لی ہو۔ 2011 میں انڈونیشیا کے ایک جزیرے پر ایک فوٹوگرافر کا کیمرا ایک مکاک بندر نے اٹھا لیا تھا اور حادثاتی طور پر سیلفی لے لی تھی۔
یہ تصویر دنیا بھر میں خوب شیئر ہوئی لیکن کئی برس بعد جانوروں کے حقوق کے ادارے پی ای ٹی اے نے فوٹوگرافر ڈیوڈ سلیٹر پر کیس دائر کر دیا کہ اس تصویر کے کاپی رائٹ بندر کے نام ہیں نہ کہ فوٹوگرافر کے اور اس کی رائلٹی بندر کو ملنی چاہیے۔
امریکی ججوں نے فیصلہ دیا کہ کاپی رائٹ کے قوانین کا اطلاق جانوروں پر نہیں ہوتا، تاہم سلیٹر نے اس تصویر سے ہونے والی آمدن کا 25 فیصد انڈونیشیا کے کلغی دار مکاک بندروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
© The Independent