متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل سے ’امن معاہدے‘ پر دستخط کی تقریب میں سعودی عرب کی عدم شرکت مملکت کے اصولی اور محتاط موقف کی غماز ہے۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کے موقع پر واشنگٹن کے وائٹ ہاؤس میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ ’مشرق وسطیٰ کے پانچ اور ملک تل ابیب سے تعلقات معمول پر لانے کے قریب ہیں۔‘
اسرائیل کو ممکنہ طور پر تسلیم کرنے والے ملکوں کا نام ظاہر کئے بغیر صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم پانچ مزید ملکوں کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لاتا دیکھ رہے ہیں۔‘
13 اگست کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے اعلان کے بعد سے قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ ابوظہبی کے بعد کون سی عرب ریاست تل ابیب سے سفارتی تعلقات قائم کرتی ہے، تاہم گذشتہ جمعہ (11 ستمبر) کو بحرین نے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا اعلان کر کے یہ ’سسپنس‘ ختم کر دیا۔
مصر اور اردن ہی گذشتہ ماہ سے قبل صرف ایسے دو عرب ملک تھے جن کے اسرائیل سے امن معاہدے تھے۔ 1967 کی عرب ۔ اسرائیل جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے چند علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔
کویت، قطر اور الجزائر جیسے عرب ممالک نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ایک قابل عمل فلسطینی ریاست کے قیام پر تیار نہیں ہوتا، اس وقت تک صہیونی ریاست سے مکمل سفارتی تعلقات کا قیام خارج از امکان ہے۔
لیبیا، شام اور عراق داخلی کشیدگی اور اندرونی سیاست میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ان کی طرف سے مستقبل قریب میں کسی متازع سفارتی اقدام کی سمت پیش رفت دکھانا ممکن نہیں۔
اس کے بعد بہت کم ایسے ملک باقی بچے ہیں جن کا نام اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ملکوں کے طور پر لیا جاتا رہا ہے اگرچہ ان کی حکومتوں کے لیے اس ضمن میں معاملات حتمی انداز میں طے کرنا اتنا آسان نہیں، جتنا بظاہر دکھائی دیتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود کسی ’غیر متوقع معاہدے‘ کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
سعودی پالیسی کیا ہوگی؟
امریکہ چاہتا ہے کہ دیگر عرب ممالک، بشمول سعودی عرب، اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کریں تاکہ آخر کار اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین معاہدہ ہو اور مغربی ایشیا میں ہمیشہ کے لیے امن قائم ہو سکے۔
امریکی انتظامیہ سمجھتی ہے کہ جن پانچ ملکوں کی جانب سے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا اشارہ دیا گیا ہے ان میں سعودی عرب بھی شامل ہو سکتا ہے، تاہم مملکت کی قیادت نے اس معاملے پر ملے جلے مگر محتاط اشارے دیے ہیں۔
واشگٹن میں امریکی صدر نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی سعودی فرمانروا سے ’نہایت عمدہ بات چیت‘ ہوئی ہے۔ ان کے بقول ’وہاں [سعودی عرب] میں بھی مثبت چیزیں رونما ہوں گی۔‘
سعودی حکام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان کا ملک، عرب امن منصوبے کے فریم ورک سے باہر اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے حق میں نہیں۔ عرب امن منصوبہ 1967 کے فلسطینی علاقوں میں ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا ہے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود کے مطابق قضیہ فلسطین سے متعلق ریاض حکومت کا مسلمہ موقف تبدیل نہیں ہوا۔ ایک ٹویٹر پیغام میں انہوں نے بتایا کہ ’متحدہ عرب امارات سے اسرائیل سمیت دنیا بھر کے لیے اڑان بھرنے والی پروازوں کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے مملکت کی فلسطینی کاز اور فلسطینی عوام کی حمایت میں اپنائے گئے مسلمہ موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ سعودی عرب بیروت میں ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس میں پیش کردہ عرب امن منصوبے کے مطابق مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کے ضمن میں ہونے والی پیش رفت کا خیرمقدم کرتا ہے۔‘
متحدہ عرب امارات سے اسرائیل کے لیے اڑان بھرنے والی پروازوں کو سعودی عرب کی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ’شاندار کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ ایک نامور سعودی عالم دین کے حالیہ بیان کو بھی سعودی عرب کی نارملائزیشن پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ قرار دیا جا رہا ہے۔
یادش بخیر! رواں برس جون میں ہونے والی بحرین کانفرنس میں سعودی عرب نے وزارتی سطح کی نمائندگی کے ذریعے شرکت کی۔ فلسطینیوں کے معاشی دلدر دور کرنے کی خاطر ہونے والی مناما معاشی کانفرنس کا فلسطینی اتھارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا۔ اسی طرح یو اے ای اور بحرین کے اسرائیل سے امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں سعودی عرب کی عدم شرکت مملکت کے اصولی اور محتاط موقف کی غمازی کرتی ہے۔
اپنا اصولی موقف واضح کرتے ہوئے سعودی عرب، مشرق وسطیٰ کی حالیہ سیاست کے حوالے سے انتہائی زیرک پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ مملکت کی سیاسی قیادت کی نظریں امریکہ میں اگلے امریکی انتخابات پر مرکوز ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ریاض، امریکی سیاست میں ہونے والے متوقع ’اپ سیٹ‘ کے بعد ہی مشرق وسطیٰ سے متعلق اپنے کارڈز ظاہر کرے گا۔
اگرچہ امریکہ میں ڈیموکریٹس یا ری پبلکن کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو، اسرائیل کی خم ٹھونک کر حمایت کرنا ہر دو سیاسی جماعتوں کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون رہا ہے، تاہم جو بائیڈن کی کامیابی کی صورت میں مشرق وسطیٰ کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، اس کا اندازہ ان کی حکومت بننے کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی سیاست پر نظر رکھنے والے سیاسی پنڈت سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب، نئی امریکی حکومت کی مڈل ایسٹ پالیسی میں قضیہ فلسطین کے ممکنہ حل سے متعلق پیش رفت دیکھ کر ہی اسرائیل سے تعلقات نارملائز کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گا۔
سعودی فرمانروا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک حالیہ فون کال کے دوران واضح طور پر بتا چکے ہیں کہ ’ان کا ملک قضیہ فلسطین کا منصفانہ اور مستقل حل چاہتا ہے۔ وہ امن کی خاطر امریکی اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔‘
سوڈان: منقسم قیادت
افریقی ملک سوڈان سے ملنے والی اطلاعات میں یہی تاثر ملتا ہے کہ خرطوم، جلد ہی متحدہ عرب امارات اور بحرین کی راہ پر چلتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔ تاہم عبوری حکومت میں شامل سول اور فوجی حکام کے درمیان داخلی سیاست پر اختلافات کی وجہ سے موجودہ سوڈانی قیادت تسلیم ورضا کے اس کھیل میں اپنا حتمی ووٹ اسرائیل کے حق میں ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موریتانیہ: ممکنہ ہدف
جنوب مغربی افریقہ کے ملک موریتانیہ نے بھی گذشہ ماہ یو اے ای اور اسرائیل کے سفارتی معاہدے کے اعلان کا خیر مقدم کیا تھا۔ عرب لیگ کے اس منفرد ملک کے اسرائیل سے مکمل سفارتی تعلقات عرصہ دراز سے قائم تھے، تاہم غزہ پر 2009 میں کیے جانے والے اسرائیلی حملے کے بعد سے یہ سفارتی تعلقات منجمد چلے آ رہے ہیں۔
مراکش: ابھی نہیں
ادھر مراکش ایک ایسا ملک ہے کہ جس کی جانب سے امارات۔اسرائیل تعلقات نارملائزیشن پر فوری ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا، تاہم معاہدے کے ایک ہفتہ بعد مراکش کے وزیر اعظم سعد الدین العثمانی نے اسرائیل ۔ امارات معاہدے کو مسترد کر دیا۔
’مراکش کی حکومت، بادشاہ اور عوام اپنے مسلمہ موقف کے ذریعے فلسطینی عوام کے جائز اور قانونی حقوق اور مقدس مسجد اقصیٰ کا تحفظ چاہتے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’مراکش کے لیے یہ معاملات شجر ممنوعہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ انہیں گزند پہنچانے والے کسی بھی سمجھوتے کو مسترد کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔‘
مراکش کے چوتھے بادشاہ محمد اسلامی تعاون کانفرنس کی یروشلم کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ ان سے قبل یہ عہدہ ان کے مرحوم والد شاہ الحسین دوئم کے پاس تھا۔
1993 میں فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل سے تعلقات کے بعد رباط اور تل ابیب نے ابتدائی نوعیت کے تعلقات استوار کیے، تاہم 2000 میں بپا ہونے والی فلسطینی انتفاضہ کے بعد اسرائیل سے تعلقات معطل کر دیے گئے۔
سلطنت عمان کی باری؟
اگرچہ عمان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ کسی بھی طرح کے معاہدے کے امکان کے بارے میں باضابطہ طور پر ابھی تک کچھ نہیں کہا ہے تاہم عمان نے بحرین اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن کے قیام کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔
اسی خیرمقدم کی وجہ سے عمان کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ ہونے کی قیاس آرائیاں تیز تر ہو گئی ہیں۔
لیکن عمان کی اپنی ایک مخصوص خارجہ پالیسی رہی ہے۔ ایران کے ساتھ اس طرح کی پُرامن خارجہ پالیسی اور اچھے تعلقات کے تناظر میں عمان کے اسرائیل کے ساتھ مل جانے سے نئی الجھنیں پیدا ہونے کا امکان ہے۔
اسی لیے دوسرے عرب ممالک کے مقابلے میں اسرائیل کے ساتھ متوازن خارجہ پالیسی اپنانے کے باوجود اس نے ابھی تک اسرائیل کی جانب کسی سمجھوتے کے لیے اپنا ہاتھ نہیں بڑھایا ہے۔