ان ہستیوں پر سب سے زیادہ پیار آتا ہے جو بہت سہولت سے کہہ دیتی ہیں، جنسی زیادتیوں کے واقعات صرف پاکستان میں تو نہیں ہوتے، باہر بھی تو ہوتے ہیں۔
یہ کہتے ہوئے وہ مغربی ممالک میں درج ہونے والی جنسی ہراسانی اور زیادتیوں کے واقعات کی ایک فہرست اٹھا کر سامنے رکھ دیتے ہیں کہ یہ دیکھو۔ آپ ایک نظر تحقیقی پلندے کو دیکھتے ہیں ایک آنکھ محقق کو دیکھتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں کہ برخوردار در اصل کہنا کیا چاہ رہے ہیں؟ مطلب تو اس کے کُل ملا کے دو ہی نکلتے ہیں۔ پہلا، جنسی زیادتیوں کا معاملہ وہاں بھی ایسا ہی ہے، یہاں بس شور زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرا، جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا ہو گیا، اب شور شرابے کی بھی کیا ضرورت ہے، منہ چھپا کے آرام سے چھاوں میں کیوں نہیں بیٹھ جاتے۔
یہ بات حیرانی کی اس لیے نہیں ہے کہ زیادتی کی شکار ہونے والی خاتون کو چپ رہنے کا مشورہ ہماری دیرینہ روایت دیتی ہے۔ یہی ہم نے سیکھا ہے اور یہی ہم سکھارہے ہیں۔ در اصل خاتون کی چٹیا ہم نے عزت کے کھونٹے سے باندھ دی ہے۔ وہ ہلکی سی چٹیا کھینچتی ہے تو خاندانی عزت و شرافت کا خیمہ ہلنے لگتا ہے۔ ہڑ بڑا کے ہم باہر نکلتے ہیں تو سارے بھاشن خاتون کے ہلنے جلنے پر دے دیتے ہیں۔ کوئی توجہ دلادے تو بھی اس نکتے کی طرف ہم نہیں آتے کہ خیمے سے اسے باندھا ہی کیوں ہے۔
ریپ ہوا، برا ہوا۔ اب ریپ کی بات ہو گی تو زیادہ برا ہو گا۔ کیا برا ہو گا؟ یہی کہ دس لوگوں کو خبر ہو گی اور عزت خاک میں مل جائے گی۔ اب یہ عزت اگر خاتون کی خاک میں مل رہی ہوتی تو پھر بھی کوئی بات تھی۔ المیہ یہ ہے کہ گھر کے مردوں کو اپنی فکر لگ جاتی ہے کہ اب ہم کعبے کس منہ سے جائیں گے۔ زمانے سے آنکھیں کیسے ملائیں گے اور سوالوں کا جواب کیسے دیں گے۔
اس معاشرے کی یہی تو خوب صورتی ہے کہ یہاں مجرم چھاتی چوڑی کرکے گلی کے نکڑ پہ بیٹھتا ہے اور ڈسی ہوئی خاتون کو کھڑکیوں پر شرم و حیا کے پردے گرا کر گھر کے ایک کونے میں گم سم بیٹھنا پڑتا ہے۔ ہمارا ہی حوصلہ ہے کہ اس سب کچھ کے بعد ہم خود کو اقوامِ عالم پر قیاس بھی کرتے ہیں۔
ہم جب مغرب میں جنسی زیادتیوں کے واقعات کی بات کرتے ہیں تو دو حقیقتیں بہت خوبصورتی سے نظر انداز کردیتے ہیں۔ ایک، مغرب میں ہراسانی اور زیادتیوں کے واقعات باقاعدہ رپورٹ ہوتے ہیں۔ دوسرا، رپورٹوں میں جن چیزوں کو وہ ہراسانی اور زیادتی کے واقعات کہہ رہے ہوتے ہیں وہ ہمارے ہاں ابھی کسی علمی فکری بحث کا حصہ ہی نہیں بنے۔ جو بات وہاں جنسی زیادتی کہلاتی ہے وہ ہمارے ہاں بدتمیزی کے زمرے میں بھی نہیں آتی۔
سنگین نوعیت کی کچھ زیادتیاں تو پھر ایسی بھی ہیں جنہیں مرد کا پیدائشی اور انسانی حق تصور کیاجاتاہے۔ اُس ’حق‘ پر کوئی حرف آ جائے تو بہت معصومیت سے پوچھتے ہیں، اب کہاں مر گئی ہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں؟ یعنی انسانی حقوق کے علمبردار دنیا سے پوچھیں کہ انہوں نے ہم سے تشدد کا یکطرفہ اختیار کیوں چھین لیا؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
مہذب دنیا میں خواتین نے جنسی زیادتی کی شکایات جن مردوں کے خلاف درج کی ہیں اُن میں بڑی تعداد اُن کے اپنے شوہروں کی ہے۔ اپنے شوہروں کی؟ کیا بات کر رہے ہو یار، مطلب شوہر کیسے اپنی بیوی کے ساتھ جنسی زیادتی کر سکتا ہے؟ وہ تو اپنے جائز جنسی تقاضے پورے کر رہا ہوتا ہے، بلکہ سچ پوچھو تو وہ تو حقوقِ زوجیت ادا کر رہا ہوتا ہے۔ ہم اس طرح حیرت سے سر اس لیے پکڑ لیتے ہیں کہ ازدواجی اور خانگی انصاف کے متعلق ہمارے تصورات دنیا سے بہت مختلف ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ نکاح نامہ دراصل ایک ٹرانسفر لیٹر ہے جس کے تحت ہم خاتون کو باپ کی ملکیت سے اپنی ملکیت میں منتقل کر دیتے ہیں۔
ملکیت کی اس منتقلی کے بعد خاتون کا وجود اور اس کا ذاتی دائرہ کچھ بھی معانی نہیں رکھتا۔ مرد مختارِ کل ہے، جب اُس کے مزاج میں آئے وہ خاتون کے وجود میں مداخلت کر سکتا ہے۔ خاتون کی رضا مندی اور آمادگی کی یہاں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حیثیت تو خیر اس چیز کی ہوتی ہے جو کسی دستور میں وجود رکھتی ہو۔ ہمارے حساب کتاب میں تو خاتون کے لیے رضامندی، آمادگی اور انکار جیسے الفاظ سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے۔ جو چیز وجود ہی نہیں رکھتی اس کی حیثیت پر کلام چہ معنی دارد؟ غلام، محکوم اور خاتون کی طبعیت ومزاج پر فیصلے ہونے لگے تو پھر آقا، حاکم اور مرد کا مطلب ہی کیا رہ جائے گا۔
طبعیت مرد کی ہوتی ہے، عورت کا توصرف جسم ہوتا ہے۔ مرد کی طبعیت پر کوئی بات گراں گزر جائے تو دو تھپڑ لگا کر اپنا تکیہ الگ کر سکتا ہے۔ خاتون کے دل میں چھتیس چھید کیوں نہ ہو جائیں، وہ اپنی چادر سمیٹ کر واک آوٹ نہیں کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ کیسے رکھے؟ اس بات کو تو برا کہا گیا ہے اور سختی سے ممانعت بھی کی گئی ہے۔
ہمارے نیکو کار جب تہذیبِ مغرب کی برائیاں گنواتے ہیں تو قانونی جبر کی چند مثالیں بھی پیش کرتے ہیں۔ نمایاں مثال اس میں تشدد کی روک تھام کے حوالے سے ہوتی ہے۔ بہت فکرمندی کے ساتھ کہتے ہیں، دیکھو بیٹا وہاں سے زیادہ آزادی تو الحمدللہ ہمیں یہاں نصیب ہے۔ وہاں تو آپ بیوی کو سدھارنے کے لیے ہلکا سا تھپڑ جڑ دو تو پولیس پوری بارات لے کر پہنچ جاتی ہے۔ تربیت کے لیے بچے کی گُدی گرم کرو تو ہتھکڑیاں لگ جاتی ہیں۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے بیٹا۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ باپ اور شوہر کے سامنے اف بھی نہیں کرنی اور یہ ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ان کو جیل میں ڈال دو؟ لاحول ولا۔ اللہ معاف کرے ایک ایک کر کے قیامت کی ساری نشانیاں پوری ہو رہی ہیں۔
مہذب دنیا میں اس طرح کے واقعات جب سامنے آتے ہیں تو سماج کا اجتماعی شعور ظالم کے لیے راستہ نکالنے کی بجائے مظلوم کا مقروض ہو جاتا ہے۔ لڑکی کسی تلخ تجربے سے گزر کر گھر پہنچتی ہے تو اسے زبان تالو سے لگا کر ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھنا نہیں پڑتا۔ وہ اپنا معاملہ پورے زیر و زبر اور کم و کیف کے ساتھ میز پر رکھ دیتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ معاملہ سن کر میرے والدین مجھے نوکری یا تعلیم چھوڑنے کا نہیں کہیں گے۔ میری پیشہ ورانہ دلچسپیوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہرائیں گے۔ میرے بود وباش، چال چلن اور رہن سہن کو اس زیادتی کی وجہ نہیں بتائیں گے۔ جس وقت میں گھر سے نکلتی ہوں اس وقت پر فرد جرم عائد نہیں کریں گے۔ میرے زخموں میں اپنی عزت کے نشان نہیں ڈھونڈیں گے۔ مجرم اگر میرا چاچا ماما نکلا تو والدین ان کا دفاع نہیں کریں گے۔ چپ رہنے کی مجھے تجویز دیں گے اور نہ خود منہ دنیا سے منہ چھپائیں گے۔ انصاف کی راہداریوں میں جب میں مجرم کا تعاقب کروں گی تو وہ میرے ساتھ آئیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
متاثرہ خاتون اس معاشرے میں نکلتی ہے تو زمانے کی انکھ سے آنکھ ملا کر دھڑلے سے چلتی ہے۔ شرم ساری، ندامت، ہرزہ سرائی اور منہ چھپائی کی رسم مجرم کے حصے میں آتی ہے۔ خاتون کو نہیں، ذہنی دباؤ کی ادویات مجرم کو لینی پڑتی ہیں۔ خاتون جب اپنی رضامندی کا سوال لے کر قانون کی بارگاہ میں پہنچتی ہے تو قانون گواہ مانگ کر اُسے شرمندہ نہیں کرتا۔ خاتون کے لیے گفتگو کا دائرہ اتنا تنگ نہیں ہوتا کہ پلٹ کر وہ یہ بھی نہ کہہ سکے کہ قبلہ! جہیز میں مجھے خواب گاہ میں تعینات کرنے کے لیے گواہ نہیں دیے گئے تھے۔ مجھے علم نہیں تھا کہ میرا ریپ کس تاریخ اور کس مقام پر ہونے والا ہے، ورنہ اتنی سلام دعا تو لوگوں سے ہے کہ دو چار گواہوں کا پیشگی انتظام کر لیا جائے۔
وہاں کی تہذیب خاتون کو ’چلو چھوڑو یار‘ پر مجبور نہیں کرتی۔ اسے حوصلہ دیتی ہے کہ تمہیں ایک ذمہ دار شہری کی طرح زیادتی کا یہ کیس رپورٹ کرنا ہوگا۔ معاملہ جب رپورٹ ہوتا ہے تو نظام اور بیانیہ مل کر اس رپورٹ کو چُھپاتے نہیں ہیں، چھپواتے ہیں۔ اُن کا خیال ہوتا ہے کہ زیادتیوں کے واقعات اور قانونی انصاف کی مثالوں کو ہم منظر عام پر لائیں گے تو اپنے بچوں کے لیے فکرمند دنیا اس سے کچھ سیکھے گی۔ مگر دنیا ان رپورٹوں کے پرنٹ آوٹ نکالتی ہے اور مظلوم کے لیے آواز اٹھانے والوں کے منہ میں ٹھونس کر کہتی ہے یہ دیکھو، وہاں بھی تو یہی کچھ ہوتا ہے۔