سلطانہ صدیقی پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اپنا ٹیلی ویژن نیٹ ورک قائم کیا اور آج پاکستانی شوبز خصوصاً ڈراموں کے ضمن میں یہ چینل معیار مقرر کررہا ہے۔ ان کی اس شعبے میں خدمات کی طویل فہرست ہے جسے سراہتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز دینے کا اعلان کیا ہے۔
انڈیپینڈنٹ اردو نے سلطانہ صدیقی سے جنہیں شوبز کی دنیا میں سب ’سلطانہ آپا‘ کہتے ہیں اپنی خصوصی ملاقات میں سب سے پہلے یہی پوچھا کہ آخر ان کے تفریحی چینل کی کامیابی کا راز کیا ہے؟
اس پر سلطانہ صدیقی نے کہا کہ ان کے خیال میں جس وقت انہوں نے یہ چینل شروع کیا تھا اس وقت ٹی وی پر ’سوپ‘ چل رہے تھے جبکہ ان کی رائے میں اپنے معاشرے کی کہانیوں کو فوقیت ہونی چاہیے تھی اور جب یہ کام ہوا تو عوام بھارتی ڈراموں سے ہٹ کو ہم ٹی وی کی جانب آگئے۔ ’سب سے اہم یہ کہ ہم نے نئے لوگ متعارف کروائے اور صاف ستھرے ماحول میں کام کرنے کا موقع دیا، جس سے سب سے زیادہ فرق پڑا‘۔
ہم ٹی وی نے نجی پاکستانی ٹیلی ویژن ڈراموں کو پاکستانیت کے قالب میں کیسے ڈھالا کیونکہ اس وقت تو یہ بھارتی ’سوپ‘ کا چربہ بنے ہوئے تھے، اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق پی ٹی وی سے رہا ہے اور جب انہوں نے یہ چینل کھولا تو وہ اکیلی تھیں جنہیں اس کام کے بارے میں معلوم تھا اور پاکستان کی اپنی کہانیوں کو اہمیت دی۔
ان دنوں پاکستانی ڈراموں پر ہونے والی یہ نکتہ چینی کہ یہ صرف شادی بیاہ اور محبت کے گرد ہی گھومتے رہتے ، سلطانہ صدیقی نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں پوری دنیا ہی شادی بیاہ کے گرد گھومتی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ کہتے ہیں کہ محبت نہ دکھائیں، طلاق نہ دکھائیں، اب شادی بیاہ بھی نہ دکھائیں تو پھر کیا دکھائیں۔
حالیہ دنوں میں پیمرا کی جانب سے 3 پاکستانی ٹی وی ڈراموں پر پابندی لگائی گئی ہے جن میں ہم ٹی وی کا ڈرامہ ’پیار کے صدقے ‘ بھی شامل ہے، اس پر ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ ڈرامہ پی ٹی وی پر بھی نشر ہوا ہے۔
’اعتراض کرنے والوں نے یہ ڈرامہ دیکھا ہی نہیں ہے کیونکہ میرا دعوٰی ہے کہ یہ فن کا اعلیٰ نمونہ ہے‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پیمرا کو چند شکایات ضرور آجاتی ہوں گی مگر یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا یہ اکثریت کی رائے ہے یا چند افراد کی۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پہلے اڈاری پر بھی پیمرا کا لیٹر آیا پھر بعد میں خود ہی کہا کہ وہ خوبصورت چیز تھی۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ڈرامہ یا اس کا موضوع برا نہیں ہوتا اسے کس طرح سے پیش کیا جاتا ہے یہ اہم ہے اور ڈرامے میں تو اس کا حل بھی بتایا جاتا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ابھی حال ہی میں راہ چلتی ہوئے خاتون کے ساتھ جو ہوا، پھر وہ سارا دن نیوز چینلز پر چلتا رہا، اب وہ بھی بچے دیکھ رہے ہیں، اب یا تو نیوز میں بھی یہ چیزیں نہ چلائیں۔
’پیار کے صدقے میں 3 مسائل تھے اسے تفصیل سے دیکھنا چاہیے جسے اکیڈمی میں رکھنا چاہیے۔ میں نے پیمرا سے درخواست کی ہے کہ وہ اسے دیکھیں۔‘
ہم ٹی وی کا اپنے نیوز چینل کے بارے میں پہلے تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’بس غلطی ہوگئی‘۔ پھر کہا کہ ان کا خیال تھا کہ ایک نیٹ ورک کا گلدستہ ہوتا ہے اسے مکمل کرنا تھا۔ ’میں تو اس چینل سے کما رہی تھی، مگر نیوز چینل میں کوئی آمدنی نہیں ہے‘۔ ان کے مطابق نیوز چینل کا مقصد تھا کہ مکمل تحقیق کے ساتھ کیسے خبر دینے چاہیے، مہمان کو بولنے کا موقع دینا چاہیے۔
حال ہی میں ہم ٹی وی نیٹ ورک نے ایس ای سی پی کو خط لکھا کہ اسے ’ہوسٹائل ٹیک اوور‘ کا سامنا ہے، اس معاملے پر صدر ہم ٹی وی نیٹ ورک نے کہا کہ پاکستان کی ایک پالیسی ہے کہ غیرملکی سرمایہ کار میڈیا کا انتظام نہیں سنبھال سکتے یہ پیمرا کا قانون ہے۔ ’ہمارے 44 فیصد شیئر ہولڈرز باہر کے ہیں اور پاکستان میں کچھ لوگ ہیں جن کی مہارت کمپنیز کو اِدھر سے اُدھر کرنے کی ہے، انہوں نے 9 فیصد شیئر لے کر جو دوسرے اچھے سے چل رہے تھے انہیں گمراہ کیا تاکہ 51 فیصد بنا کر کامیاب ہوں، اور جو بھی اس کے پیچھے ہے میں انہوں کبھی نہ کبھی منظر عام پر لاؤں گی‘۔
انہوں نے بتایا کہ جو ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ان پر تو نیب سمیت کئی کیسز بھی ہیں، تو اس بارے میں ہم نیٹ ورک کی جانب سے ایس ای سی پی اور پیمرا دونوں کو خط لکھا ہے۔ ’میڈیا ایک حساس معاملہ ہے، اب جو غیرملکی سرمایہ کار ہیں ان میں کون کون شامل ہے یہ کسی کو نہیں معلوم، کیا انڈیا ہے یا کوئی اور نہیں معلوم‘۔ اس لیے حکومت کو دیکھنا چاہیے اور حکومت ِ پاکستان سے بھی امید ہے کہ وہ دیکھے گی کہ اس کے پیچھے کون لوگ ہیں اور ’وہ کیونکہ دوسری کمپنیز کے ساتھ ایسا کرچکے ہیں، اس لیے یہی خدشہ مجھے بھی رہا‘۔
22 اگست کو بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ہونے والے انتخابات پر سندھ ہائی کورٹ نے رکوا دیے، اس قانونی کارروائی کا ہم ٹی وی کے کام پر کتنا اور کیسے اثر پڑ سکتا ہے، اس بارے میں سلطانہ صدیقی کا کہنا تھا کہ ان کے کام پر تو اس کا کوئی اثر نہیں پڑا، عدالت کے سٹے آرڈر سے تو بہتر ہوا اور اچھا ہے کہ عدالے نے اس معاملے کو سمجھا۔
ہم ٹی وی کے زیادہ تر ڈرامے مومنہ درید، اور مومل پروڈکشن سے لے کر چلانے پر جو اعتراض ہوا ہے اسے آپ کیسے دیکھتی ہیں۔ سلطانہ صدیقی نے کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ زیادہ تر ڈرامے اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ شروع میں جب مومنہ نے ایک دو ڈرامے جیو کو دیے تو بورڈ کا فیصلہ تھا کیونکہ ان کی ریٹنگ زیادہ آگئی تھی۔ دوسرا یہ کہ اگر اےآروائی کو بھی دیکھیں تو ان کے اپنے پروڈکشن ہاؤس ہیں۔ ہم ٹی وی پر ہمایوں کے ڈرامے بھی چلے ہیں مگر زیادہ ان کے چلے ہیں جن کے ساتھ کام کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلطانہ صدیقی کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارہ امتیاز دینے کا اعلان ہوا ہےاس پر ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد ہمیشہ اچھا کام رہا ہے ایوارڈ نہیں لیکن جب سراہا جائے تو اچھا لگتا ہے۔ ’مجھے پہلے بھی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی مل چکا ہے جس کے لیے میں شکر گزار ہوں، مجھے کئی عالمی اعزازات بھی مل چکے ہیں مگر میں ہمیشہ پاکستان کا ایک ’سافٹ امیج‘ باہر بھیجنے کے حق میں ہوں اور اسی لیے میں نے امریکہ اور کینیڈا میں بھی شوز کیے ہیں۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی دوڑ میں پاکستان اتنا پیچھے کیوں ہے، ہمارے ٹی وی چینلز ڈیجیٹل دور میں داخلے سے اتنا گھبرا کیوں رہے ہیں، اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں بھی سوچ رہی ہیں اور بالکل ہمارے یہاں بھی ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف ڈیجیٹل ہی نہیں تعلیم میں بھی بھارت ہم سے بہت آگے ہے، ابھی حال ہی میں جو آن لائن تعلیم کی بات ہورہی تھی تو ہمارے یہاں جو کام کرنے والی آتی ہے وہ کہتی ہے کہ ہمارے یہاں تو ٹیلی فون ہی نہیں ہے۔ ’بہرحال اب ڈیجیٹل زیادہ بڑھے گا، کافی لوگوں نے ڈیجیٹل چینلز کھولے ہیں اور ہم بھی اس پر کام کررہا ہے اور ابھی ہم ڈیجیٹل ایوارڈز بھی منعقد ہورہے ہیں۔
یہ بتائیں کہ فیس بک انتظامیہ کے تعاون سے جو آپ پاکستان کے پہلے سوشل میڈیا ایوارڈز منعقد کررہی ہیں، اس کا خیال کیوں اور کیسے آیا۔ اس سوال پر انہوں نے مسکرا کر کہا کہ اسی پر تو ہم چلتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے زمانے میں جب سب گھر پر تھے تو اس وقت سوچا کہ یہ ڈیجیٹل ایوارڈز ہونا چاہیے اور یہ ابھی انڈیا میں بھی شروع نہیں ہوئے ہیں۔ فیس بک کے تعاون سے ہورہے ہیں اور یہ پہلی بار ہی ہورہا ہے۔
پاکستانی ڈرامے کے مستقبل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کا انحصار حکومت پر ہے کیونکہ اگر سراہیں گے تو آگے جائے گا اور ایسے ہی کرتے رہیں گے تو تخلیقی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔