کرونا وائرس کی وجہ سے جہاں دنیا کے سارے کام متاثر ہوئے وہیں تعلیمی نظام بھی بری طرح درہم برہم ہوا لیکن بالآخر 15 ستمبر کو پاکستان میں تعلیمی سرگرمیاں کچھ قواعد و ضوابط کے ساتھ بحال کردی گئیں۔
تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے فیس ماسک پہننے کی پابندی اور کلاس میں تین فٹ دوری کا سماجی فاصلہ ضروری قرار دیا گیا۔
اسلام آباد میں مختلف جامعات کے باہر دیکھا گیا کہ جس طالب علم نے فیس ماسک نہیں پہن رکھا تھا اسے سکیورٹی اہلکار اندر داخل نہیں ہونے دے رہے تھے لیکن اندر جاکر معلوم ہوا کہ طالب علموں کی اکثریت نے لاپرواہی کا مظاہر کیا ہوا ہے۔
سکیورٹی اہلکار طالب علموں کو روک روک کر ہاتھ جوڑ کر کہتے دکھائی دیے کہ آپ فیس ماسک لازمی پہنیں تاکہ نہ صرف آپ کی بلکہ دوسروں کی جان بھی محفوظ رہے۔
ایک سکیورٹی اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم تو حیران ہیں ایسے پڑھے لکھے طبقہ کو بھی بار بار کہنا پڑتا ہے کہ ماسک پہنو اور سماجی فاصلہ رکھو لیکن بہت سارے بچے ہماری بات کو سنجیدہ نہیں لیتے۔‘
’جامع میں داخل ہوتے وقت ہمارے سامنے ماسک پہن لیتے ہیں مگر تھوڑی دور جاکر اتار دیتے ہیں۔ جو کہ انتہائی غیر ذمہ داری ہے۔‘
جامعات میں مختلف اوقات میں طلبہ کی آن کیمپس کلاسز ہوئی ہیں لیکن پھر ان طلبہ کو ایک ٹائم ٹیبل دیا گیا جس میں آن لائن اور آن کیمپس کلاسز کا شیڈول درج تھا۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ پرانے طلبہ کے لیے تو آن لائن کلاسز لینا اتنا مشکل نہیں کیونکہ وہ کرونا کے دوران اس مرحلے سے گزر چکے ہیں لیکن جن کے نئے داخلے ہوئے ہیں اور ان کو ایسا تجربہ نہیں ہے انہیں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔
گذشتہ شب ٹوئٹر پر #WeWantClassesInCampus ٹرینڈ کرتا رہا ہے جس میں صارفین اپنی اپنی آرا شیئر کرتے ہوئے آن کیمپس کلاسز کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ایک صارف سرفراز اکبر لکھتے ہیں کہ ’آن لائن کلاسز نہیں چاہیے کیونکہ اس سے کچھ بھی نہیں سیکھا البتہ وقت برباد کیا ہے۔ اس سے اچھا کہ بندہ ٹک ٹاکر بن جائے۔‘
عبدالرحمن نامی صارف نے لکھا کہ ’کرونا وبا کے سبب لوگ مالی مشکلات میں ہیں لیکن نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں نے فیسز وصول کیں جو طلبہ اور والدین کے لیے بہت مشکل اور غلط ہے۔‘
صحافی و بلاگر رجب علی فیصل اپنی ایک ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ ’طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ہاسٹلز میں رہائش پذیر ہے، یونیورسٹیوں میں پہلے کی طرح تعلیمی نظام بحال کیا جائے یا پھر کلاسز مکمل طور پر آن لائن کی جائیں تاکہ طلبہ اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔ خدارا ان پر ہاسٹلز کے خرچے کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔‘
ونیزہ خان نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویج اسلام آباد سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کر رہی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اپنے حالیہ تجرنے کے بارے میں بتایا۔
’میرا حال ہی میں داخلہ ہوا ہے اور پہلے دن ہماری آن کیمپس کلاس تھی جس میں اساتذہ اور طلبہ نے ایک دوسرے سے اپنا تعارف کرایا اور جب ٹائم ٹیبل ملا تو معلوم ہوا کہ آپ کی دو دن یونیورسٹی میں کلاس ہوگی اور باقی تین دن آن لائن کلاس ہوگی۔‘
ونیزہ کہتی ہیں کہ ’مجھے کافی پریشانی ہوئی کیونکہ میرا اس سے پہلے ایسا کوئی تجربہ نہیں تھا اور پھر جب آن لائن کلاس شروع ہوئی تو پہلی کلاس میں ہی ہمیں کافی پریشانی ہوئی۔ جیسے آن لائن کلاس کی میٹنگ میں شامل ہونے میں دشواری اور پھر آن لائن کلاس سے جڑے تو انٹرنیٹ کی وجہ تھی یا کچھ اور معلوم نہیں پر میں نے پورا لیکچر نہیں سنا۔‘
’تین دن میں سے صرف ایک دن ہی کلاسز ہوئیں باقی دو دن ضائع ہوگئے۔‘
ونیزہ خان کا کہنا ہے کہ ’ایسا شیڈول بنایا جائے کہ ہماری تمام کلاسز آن کیمپس کی جائیں کیونکہ ہم بالکل نئے ہیں اور ہمیں اس بارے میں کچھ بھی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ لہذا اگر آن کیمپس کلاسز ہوتی ہیں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا وگرنہ پرچوں میں مشکل ہوگی اور ہمارا رزلٹ خراب ہوگا۔‘
حکومت کو چاہیے کہ تمام کلاسز آن کیمپس یا پھر آن لائن کی جائیں۔ یہ کہنا ہے محمد فرحان کا جن کا تعلق صوبہ سندھ کے شہر سکھر سے ہے۔ وہ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں بی بی اے کر رہے ہیں اور ہاسٹل میں رہتے ہیں۔
فرحان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم دور دراز سے آئے ہیں، ادھر ہمارا نہ کوئی اپنا گھر اور نا ہی کوئی رہنے کی جگہ ہے۔ فیسز سمیت ہاسٹل اور بسس وغیرہ کے کرایہ تک جمع کرا چکے ہیں۔‘
’اب اگر دو دن آن کیمپس اور تین دن آن لائن کلاسز کرنی ہیں تو پھر ہمیں بلانے کی بجائے ساری کی ساری کلاسز آن لائن کر دیتے تاکہ کم از کم ہمارے ہاسٹل سمیت دوسرے خرچے تو بچ جاتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’کرونا کی وجہ سے ہر شخص کی معاشی حالت بدتر ہے ادھر پہلے جس ہاسٹل کا ماہانہ سات سے آٹھ ہزار روپے لیتے تھے اب اسی کا 11 ہزار سے 12 ہزار روپے لے رہے ہیں۔ جو کہ ہمارے والدین پر خوامخوا کا ایک بوجھ ہے کیونکہ پڑھائی نہیں ہو رہی اگر ہوتی تو چلو بہتر ہوتا لیکن اب جب تعلیم صحیح طریقے سے نہیں ہو رہی تو میرے خیال میں انتظامیہ یا تو مکمل کلاسز آن کیمپس کر دیں یا پھر تمام کلاسز آن لائن ہوجائیں۔‘
اس حوالے سے ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر خالد سلطان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ طلبہ کی جانب سے آن کیمپس کلاسز کرنے کا مطالبہ اہمیت کا حامل اور جائز ہے۔ بالخصوص ان طلبہ کی جانب سے جو جامعات میں پہلی مرتبہ آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میرا خود بھی یہ ماننا ہے کہ ان بچوں کا جب تک اپنے اساتذہ کے ساتھ براہ راست رابطہ نہیں ہو پائے گا تب تک نہ وہ یونیورسٹی ٹیچنگ سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں اور نا ہی ان کو اس چیز کا اندازہ ہو پائے گا کہ یونیورسیٹی ٹیچنگ کیا ہوتی ہے؟‘
’ایک اہم بات یہ کہ جب آپ اساتذہ سے براہ راست رابطہ کیے بغیر آن لائن ٹیچنگ میں جاؤ گے تو اس کا اثر ناصرف آپ کی ذاتی تربیت، کردار اور تعلیم پر ہوگا بلکہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو آمنے سامنے تو ایک طالب علم سیکھ سکتا ہے لیکن اس کا آن لائن میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔‘
پروفیسر خالد سلطان نے مزید کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت چاہتی ہے کہ وہ کرونا وبا پر قابو پا لے اور اس کے لیے جامعات بھی بند ہو سکتی ہیں۔ ’خدا نہ کرے اگر کرونا کی دوسری لہر آتی ہے تو حکومت کو مجبوراً یہ فیصلہ کرنا پڑے گا۔‘
’اس ضمن میں یہ چاہوں گا کہ ہمارے پاس ایک موقع موجود ہے اور وہ یہ کہ جن طلبہ کا پہلا یا آخری سمسٹر ہے ان کی حاضری کو آن کیمپس لازمی قرار دیا جائے اور اس میں سماجی فاصلے کا خیال رکھا جائے، ماسک پہنیں جائیں اور سنیٹائرز کا استعمال بھی لازمی قرار دیا جائے۔‘