چلغوزے کے بیوپاریوں کی جانب سے درختوں پر لگی فصل خریدنے سے انکار کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان میں دنیا کا مہنگا ترین میوہ بری طرح متاثر ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس کی قیمت آدھی رہ گئی ہے۔
جنوبی اور شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ نے نہ صرف عوام کو متاثر کیا ہے بلکہ کاروباری سرگرمیوں پر بھی منفی اثر چھوڑا ہے۔
آپریشن راہ نجات اور ضرب عضب کی وجہ سے بازاروں اور مارکیٹوں میں تو کاروبار ٹھپ ہوکر رہ ہی گیا تھا اب میوہ جات کا کاروبار بھی متاثرہو رہا ہے۔
چلغوزے کے ٹھیکےدار رسول محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ پہلے وہ درختوں پر لگے چلغوزے کے خوشے خرید لیتے تھےجس سے ان کو زیادہ منافع ہوتا تھا لیکن اب وہ حالات نہیں رہے۔ چلغوزے کے درختوں سے خوشہ اتارنے کے لیے آزادی کے ساتھ مزدوری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے نقصان کا خدشہ ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ چلغوزے کے خوشے اتار کر انہیں صاف کرکے پھل الگ کرنے میں دو ماہ سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ کارکنوں کو اس کام کے لیے دو ماہ تک مسلسل پہاڑوں پر رہنا پڑتا ہے۔ اس مقصد کےلیے خیمے لگا کر پوری ایک بستی بسائی جاتی ہے۔ دن رات مزدوری ہوتی ہے۔ لیکن یہ سب کام کرنے میں مشکلات پیدا ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے کروڑوں روپے ڈوبنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
چلغوزے کے باغ کے مالک محمد جنید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حالات بہت خراب ہیں۔ انہوں نے اپنے حصے کے باغ کا چودہ لاکھ روپے میں سودا کیا لیکن دوسرے دن سوداگر نے مال خریدنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ چودہ لاکھ کا باغ اب اگر چھ لاکھ میں فروخت ہوجائے تو وہ اسے غنیمت سمجھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال وہ بہت خوش تھے کہ چلغوزے کی فصل سے کافی آمدن ہو گی لیکن انہیں مایوسی ہوئی۔
دوسری جانب چلغوزے کی فصل کے لیے شمالی وزیرستان میں شوال جانے والے ایک سو سے زیادہ لوگوں کو زیارت پش چیک پوسٹ سے واپس کردیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ واپس بھیجے جانے لوگوں کے پاس ڈپٹی کمشنر کی راہداری نہیں تھی۔ اس سے پہلے مقامی انتظامیہ سے یہ طے پایا تھا کہ ڈپٹی کمشنر کے پروانہ راہداری پر لوگوں کو شوال جانے کی اجازت ہوگی۔ اب مسئلہ حل ہو گیا ہے اور ڈپٹی کمشنر نے تمام افراد کو راہداری جاری کردی ہے۔
ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان شاہد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چلغوزے کی فصل کے لیے شوال جانے والے لوگوں کو کسی قسم کی مشکل نہیں تھی اور اب تک چار ہزار لوگ شوال پہنچ چکے ہیں اور تیزی سے چلغوزے کے خوشے اتار رہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اب تک ستر فیصد سے زیادہ کام مکمل ہوچکا ہے اور تیس فیصد کے لیے لوگ دن رات کام کرہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ فصل ضائع نہ ہو۔
محکمہ جنگلات کے مطابق ایشیا بھر میں چلغوزے کا سب سے بڑا باغ وزیرستان میں واقع ہےجہاں سے ہر سال اربوں روپے کے چلغوزے اندرون ملک اور بیرون ملک بھیجے جاتے ہیں۔ چلغوزے کی فصل عام طورپر ستمبر سے نومبرتک تیار ہو جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چلغوزے کی فصل حاصل کرنے کے لیے 80 فیصد کام خواتین کرتی ہیں۔ چلغوزوں کے خوشے درختوں سے اتارنے کے بعد انہیں دھوپ میں رکھ کر خشک کرنا۔ ان میں سے چلغوزے نکالنا کر ایک بار پھر انہیں خشک کرنا اور بوریوں میں بھرنا سب خواتین کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
اس مقصد کے لیے دو سال پہلے 1600 خواتین کو فاٹا سیکرٹریٹ میں تربیت دی گئی تھی اور انہیں خصوصی دستانے اور جوتے بھی فراہم کیے گئے تھے۔
چلغوزے کے باغات کے مالکان کے مطابق اس بار فصل کے حصول میں مناسب احتیاط نہیں برتی گئی۔ خوشے اتارنے میں جلدبازی کی وجہ سے درختوں کے شاخوں کو نقصان پہنچا جس کی وجہ سے آئندہ سال کی فصل کو بھی نقصان پہنچے گا۔
ٹھیکے داررسول محمد کے مطابق چلغوزے کی فصل پکنے اورخوشے اتارنے میں وقت کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ وہ عام طور پر درختوں سے وہی خوشے اتارتے ہیں جو پکے ہوئے نظر آئیں مگر اس بار یہ خیال نہیں رکھا گیا جس وجہ سے منڈی میں صحیح قیمت نہیں ملے گی۔
افغان سرحد کے قریب وزیرستان کے پہاڑی علاقے صرف خوبصورت مناظر تک محدود نہیں بلکہ عمدہ میوہ جات کے درخت لوگوں کے لیے روزگار کا بڑا ذریعہ ہیں۔ وانا کے پہاڑی علاقوں میں چلغوزے سمیت اخروٹ اور زیتون کے باغات بھی کافی تعداد میں موجود ہیں۔