35سالہ عادل نواز کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے ہے اور گذشتہ دس سال سے پشاور کے ایک سرکاری دفتر میں سکیل 11 کے ملازم ہیں۔
وہ پشاور میں کرائے کے ایک فلیٹ میں کچھ دوستوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں جبکہ ان کے اہل خانہ آبائی گاؤں میں رہتے ہیں کیونکہ عادل کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ایک بڑا گھر کرائے پر لیں اور نہ ہی اس مہنگائی کے زمانے میں وہ پشاور میں گھر تعمیر کرسکتے ہیں۔
بیوی بچوں سے دور عادل کے لیے ذاتی گھر کی امید اس وقت پیدا ہوئی، جب ایک خود مختار سرکاری ادارے پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی (پی ایچ اے) نے پشاور کے علاقے سوڑیزو میں 'پشاور ریزیڈنشیا' کے نام سے سرکاری ملازمین سمیت عام لوگوں کے لیے قسطوں پر گھر بنانے کا اشتہار دیا۔
عادل نے اسی منصوبے کے لیے پانچ ہزار روپے جمع کرکے درخواست جمع کروائی اور رواں برس 11 اگست کو ہونے والی قرعہ اندازی میں ان کا نام نکل آیا۔
پی ایچ اے کی طرف سے ملنے والا آفر لیٹر ہاتھوں میں لیے عادل نواز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'مجھے کیا پتہ تھا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے گھروں کے اقساط اتنی زیادہ ہوں گی۔ اب تو گھر لینے کی امید بالکل ختم ہوگئی کیونکہ ادائیگی کا جو پلان پی ایچ اے نے قرعہ اندازی میں کامیاب ہونے والوں کے لیے بنایا ہے، اس کی ادائیگی کرنا میری طرح کے ملازم کی بس کی بات نہیں ہے۔ '
پی ایچ اے کی جانب سے شروع کیا گیا پشاور ریزیڈنشیا کا یہ منصوبہ ایئرپورٹ سے تقریباً 15 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ایک بنجر زمین ہے، جو حکومت نے اس مقصد کے لیے خریدی ہے۔
اس منصوبے کے تحت قرعہ اندازی میں کامیاب ہونے کے افراد کو پانچ مرلے، سات مرلے، 10 مرلے اور ایک کنال کے دو منزلہ گرے سٹرکچر (فنشنگ کے بغیر گھر) قسطوں پر دیے جائیں گے جبکہ منصوبے کی سڑکیں، زمین اور دیگر ترقیاتی کام خیبر پختونخوا کے سرکاری ادارے پختونخوا ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے ذمے ہے۔
جن لوگوں کا نام قرعہ اندازی میں آیا ہے، ان میں سے زیادہ تر کا یہی شکوہ ہے کہ گھروں کی قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی اقساط ملازم پیشہ افراد تو کیا، کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والا بندہ بھی ادا نہیں کر سکتا۔
اس منصوبے میں پانچ مرلے کے گھر کی قیمت سرکاری ملازمین کے لیے 34 لاکھ روپے تک جبکہ عام لوگوں کے لیے 42 لاکھ، سات مرلے کے گھر کی قیمت سرکاری ملازمین کے لیے 66 لاکھ جبکہ عام لوگوں کے لیے 73 لاکھ، 10 مرلے کے گھر کی قیمت ایک کروڑ روپے جبکہ ایک کنال کے گھر کی قیمت ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد لگائی گئی ہے۔
سب سے زیادہ درخواستیں پانچ اور سات مرلے کے گھر کے لیے جمع کروائی گئی تھیں۔ عادل نواز کا قرعہ اندازی میں پانچ مرلے کا گھر نکلا ہے اور پی ایچ اے کی جانب سے ان کو 15 اکتوبر تک تین لاکھ 50 ہزار ڈاؤن پیمنٹ جبکہ ماہانہ تقریباً 80 ہزار روپے جمع کرنے کا پلان دیا گیا ہے، جو تین سال تک ہے۔
عادل نے بتایا کہ 'ان کی تنخواہ 25 ہزار روپے ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس تنخواہ میں کوئی بندہ 80 ہزار روپے ماہانہ قسط ادا کرے۔'
انہوں نے مزید کہا: 'حکومت نے وعدہ تو کیا ہے کہ وہ غریب اور بے گھر افراد کے لیے قسطوں پر گھر مہیا کرے گی لیکن جو پیمنٹ پلان بنایا گیا ہے، وہ غریبوں کے لیے نہیں بلکہ سرمایہ کاروں کے لیے بنایا گیا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ 17 اور 18 سکیل کے ملازمین بھی 80 ہزار روپے ماہانہ قسط ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں گے۔ اس سے پہلے تو ہم نے کسی بھی سرکاری سکیم میں اتنے زیادہ قسطیں نہیں دیکھیں۔'
وزیراعظم عمران خان سمیت پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بارہا یہ بتایا ہے کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے تحت پہلی مرتبہ غریب اور بے گھر افراد اپنا گھر بنا سکیں گے۔ گذشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں عمران خان نے بتایا تھا کہ 'ماضی میں منصوے اس لیے کامیاب نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ غریبوں کا خیال نہیں رکھتے تھے اور اپنا مال بناتے تھے لیکن پہلی مرتبہ غریب اور تنخواہ دار طبقے کو گھر مل سکیں گے۔ '
نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کا افتتاح 2018 میں عمران خان نے کیا تھا، جس کے تحت 50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا اور اس منصوبے کے لیے باقاعدہ ایک اتھارٹی بھی بنائی گئی ہے۔
تاہم پشاور ریزیڈنشیا میں گھروں کی قیمتوں اور ماہانہ اقساط سے عادل کی طرح قرعہ اندازی میں کامیاب ہونے والے بہت سے افراد خوش نظر نہیں آرہے اور انہوں نے پشاور پریس کلب کے باہر مظاہرہ بھی کیا، جن کا مطالبہ تھا کہ پیمنٹ پلان پر نظرثانی کی جائے جبکہ 'پشاور ریزیڈنشیا الاٹیز ایسوسی ایشن' کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی گئی۔
مظاہرے میں شامل پشاور کے رہائشی سلیم خان نے بتایا کہ حکومت سے ہمارا صرف یہی مطالبہ ہے کہ قیمتیں اگر کم نہیں بھی کر سکتے تو کم از کم پیمنٹ پلان کو تین سال کی بجائے پانچ یا سات سال کردیا جائے تاکہ تخواہ دار طبقہ اس منصوبے سے فائڈہ اٹھا سکے اور ان کی گھر بنانے کی امید ختم نہ ہو جائے۔
سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'اب جتنے لوگوں کو آفر لیٹرز مل گئے ہیں انہوں نے ان لیٹرز کو فروخت کرنا شروع کردیا ہے کیونکہ زیادہ تر افراد اس منصوبے کی اقساط برداشت نہیں کر سکتے تو مجبوراً کچھ منافع کے لیے وہ لیٹرز کو بیچ رہے ہیں اور ان میں زیادہ تر خریدار رئیل سٹیٹ میں انویٹسمنٹ کرنے والے لوگ ہیں۔'
حکومت کیا کہتی ہے؟
اس ساری صورت حال پر خیبر پختونخوا کے وزیر برائے ہاؤسنگ ڈاکٹر امجد علی نے پیر کو ایک پریس ریلیز جاری کی، جس میں ان کا کہنا تھاکہ حکومت صوبے میں کم آمدنی رکھنے والے سرکاری ملازمین کو ذاتی چھت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے پر عزم ہے اور محکمہ ہاؤسنگ بغیر کسی نفع و نقصان کے عوام کو گھر فراہم کر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پشاور ریزیڈنشیا میں گھروں کی قیمت مارکیٹ ریٹ سے کئی گنا کم ہے، جس میں اراضی کی فراہمی، سڑک کی تعمیر، مین گیٹ، باؤنڈری وال اور چیک پوسٹس کی تعمیر صوبائی حکومت کے ذمے ہے اور اس کے لیے تین ارب 47 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الاٹیز کے تحفظات کے بارے میں ہاؤسنگ کے حکام نے پریس ریلیز میں بتایا کہ گھروں کی تعمیر کا تخمینہ اراضی کی قیمت، ترقیاتی اخراجات اور گھروں کی تعمیر پر آنے والے اخراجات کو ملا کر لگایا گیا ہے۔
دوسرے منصوبوں سے موازنہ کرتے ہوئے پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں ترقیاتی اخراجات کے بغیر فی سکوائر فٹ کی لاگت 3200 روپے تک ہے جبکہ پشاور ریزیڈنشیا میں فی سکوائر فٹ کی لاگت 2800 روپے ہے۔
ڈاکٹر امجد نے مزید بتایا کہ گھروں کی قیمت میں مزید آسانی کے لیے آسان شرائط پر قرضہ بھی دیا جائے گا۔
انڈپنڈنٹ اردو کو دستیاب معلومات کے مطابق گھروں کی اقساط جمع کرانے کے خواہش مند افراد بینک سے قرضہ حاصل تو کر سکتے ہیں لیکن اس پر تقریباً 10 فیصد شرح سود ہوگا۔
اس حوالے سے سلیم نے بتایا کہ ان کے ساتھ جتنے لوگوں نے الاٹیز ایسوسی ایشن میں رجسٹریشن کروائی ہے، ان میں ایک فیصد سے بھی کم لوگ ہوں گے جو چاہیں گے کہ وہ بینک سے سود پر قرضہ لیں کیونکہ مذہب میں اس کی ممانعت ہے۔
ان کا کہنا تھا: 'بینک سے قرضہ لینے سے بہتر ہے کہ بندہ کرائے کے گھر میں رہے لیکن سود پر کسی بھی صورت گھر بنانے کے لیے قرضہ نہیں لیں گے۔'