قومی ورثے سے نادر فن پارے غائب ہونے کا معاملہ ایک بار پھر گردش میں ہے۔
کیا یہ فن پارے اہم شخصیات کو تخفےمیں دیے گئے ہیں یا کسی نے انہیں بیچ دیا اور اصلی فن پاروں کی جگہ جعلی پینٹنگز لٹکا دی گئیں؟
ان تمام سوالوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پی این سی اے کی موجودہ انتظامیہ سے رابطہ کیا۔
پی این سی اے کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فوزیہ سعید نے رواں برس جون میں انتظامی عہدہ سنبھالا۔ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس (پی این سی اے) سے حالیہ سالوں کے دوران تصاویر کی چوریوں کی تردید کرتے ہوئے ادارہ کی سربراہ فوزیہ سعید نے کہا کہ دس پینٹنگز ان کے قانونی مالک کو واپس کی گئی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار عبداللہ جان سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مذکورہ تصاویر کی واپسی ادارے کےبورڈ کی منظوری سے ہوئی اور اس میں کوئی غیر قانونی عمل کار فرما نہیں رہا۔
فوزیہ سعید نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ یہ دس تصاویر لاہور سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مصور انور جلال شمزہ (مرحوم) کی تھیں اور وہ ان کی برطانوی اہلیہ میری شمزہ کو ہی واپس کی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ 1985 میں میری شمزہ نے اپنے مرحوم شوہر کی تصاویر کی پاکستان میں روٹس کے نام سےنمائش کی تھی۔ جس کا ایک حصہ پی این سی اے اسلام آباد میں بھی منعقد ہوا۔
نمائش کے بعد اس وقت کی پی این سی اے انتظامیہ نے میری شمزہ سے درخواست کر کے دس تصاویر مستعاراً روک لی تھیں جن کی واپسی اب تک ممکن نہیں ہو پائی تھی۔
فوزیہ سعید نے کہا کہ پی این سی اے کے ریکارڈ سے ان تمام تصاویر کا مستعار لیا جانا ثابت ہوتا ہے اور میری شمزہ ان کی واپسی کے لیے کئی خطوط حتی کہ قانونی نوٹس بھی ادارے کو بھیجتی رہی ہیں۔ فن پاروں کی واپسی کے بعد میری شمزہ نے وزیر اعظم عمران خان کو شکریہ کا خط بھی لکھا۔
ایک سوال کے جواب میں فوزیہ سعید نے کہا کہ پی این سی اے میں تصاویر کی چوریوں کے واقعات رپورٹ ہوتےرہے ہیں اور اس سلسلے میں کئی قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول ایف آئی اے نے تحقیقات بھی کیں ہیں لیکن یہ تمام کیسز اور مقدمات بند ہو چکے ہیں۔ یہ پرانی باتیں ہیں اور ان کا حالیہ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جبکہ دوسری جانب رواں ماہ چئیرمین نیب نے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹ سے پینٹنگز چوری ہونے کے معاملے پرنوٹس لیتے ہوئے نیب راولپنڈی کو معاملے کی تحقیقات کا حکم بھی دے دیا اور دو ہفتوں میں رپورٹ طلب کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیب کی جانب سے جاری اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ نیب راولپنڈی اس بات کو یقینی بنائے کہ چوری شدہ پینٹنگز کسی کو تخفے میں نہ دی گئی ہوں یا کسی دوسری جگہ منتقل نہ ہوئی ہوں اس کے علاوہ پی این سی اے میں ہونے والی مبینہ کرپشن اور غیر قانونی تقرریوں پر بھی تحقیقات کرنے کا کہا گیا۔
اس حوالے سے رواں ماہ 19 ستمبر کو نیشنل آرٹسٹ ایسوسی ایشن نے باضابطہ طور پر وفاقی وزیر شفقت محمود کو خط لکھا جس کی تصدیق قومی آرٹسٹ ایسوسی ایشن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت میں کی۔
اس خط میں کہا گیا کہ حکومت پی این سی اے سے ان کی بیش قیمت پینٹنگز غائب ہونے کا نوٹس لے۔ انہوں نے خط میں یہ بھی بتایا کہ نامور آرٹسٹ انورجلال شمزا کے دس فن پارے پی این سی اے سے غائب ہیں۔ اُن کے موقف کے مطابق 1985 میں انور جلال شمزا کی اہلیہ نے انور جلال کے دس فن پارے قومی ورثے میں دیے تھے۔
رواں ہفتے بدھ کے روز ڈویلپمنٹ کمیونیکشن نیٹ ورک کے زیر اہتمام ہونے والے ویبنار میں سابق ڈی جی پی این سی اے نعیم طاہر نے اس معاملے پر موقف دیا کہ اگر ایک آرٹسٹ اپنا فن پارہ قومی ورثے کو تخفتاً دے دیتا ہے توگیلری کی زینت بننے کے بعد وہ قومی خزانہ بن جاتی ہے اور اُس پر آرٹسٹ کے ورثا کسی بھی قسم کا حق دعوی نہیں کر سکتے۔'
جب کہ سابق ڈی جی جمال شاہ نے کہا کہ ان کے دور میں بھی انور جلال شمزا کے ورثا کی جانب سے 2017 میں اُن کی پینٹنگزواپس کرنے کا کہا گیا تھا اور موقف اپنایا گیا تھا کہ وہ پینٹنگز مستعار دی گئی تھیں لیکن جب ورثا سے ان فن پاروں کے مستعار دیے جانے کا ثبوت مانگا گیا تھا تو وہ کوئی ثبوت مہیا نہیں کر پائے تھے۔'
فن پارے غائب ہونے کا سلسلہ کب سے ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو کو ملنے والی معلومات کے مطابق پاکستان کونسل آف آرٹس کی نیشنل آرٹ گیلری سے بیش قیمت پینٹگزکے غائب ہونے کا معاملہ ابھی سے نہیں بلکہ 2009 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے دوران سب سے پہلے سامنے آیاجب کچھ سینئیر آرٹسٹس نے نیشنل آرٹ گیلری کا دورہ کیا تو وہاں موجود صادقین کی پینٹنگز کو انہوں نے جعلی قرار دےدیا اور کہا کہ یہ اصلی نہیں ہے نیز اس کے علاوہ استاد اللہ بخش اور عبدالرحمن چغتائی کی بھی پینٹنگز کے اصل ہونے پرسوالات اُٹھائے گئے تھے لیکن تب بھی یہ معاملہ حل نہ ہو پایا۔
اس کے بعد گزشتہ دور حکومت میں 2018 کے انتخابات سے قبل بھی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ قیمتی نوادرات غائب ہو رہے ہیں۔
قائمہ کمیٹی نے بعد ازاں معاملہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کو بھجوا دیا تھا لیکن اسمبلیاں تحلیل ہونے اور نئے انتخابات کے بعد یہ معاملہ بھی خاموش ہو گیا۔
ایف آئی اے کی 2017 کی تحقیق کے مطابق 134 فن پارے قومی ورثے سے غائب یا چوری ہو چکے ہیں۔
لیکن حالیہ برسوں میں ان کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
ایف آئی اے سے انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کرکے معاملے کی حالیہ تحقیقات کا پوچھا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔