اس سال کے اوائل میں کرونا (کرونا) کے مہلک وائرس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ خوف اور غیریقینی حالات کا یہ عالم تھا کہ بھائی بھائی سے دوری اختیار کر رہا تھا۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا تھا کہ کرونا وائرس ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوجاتا ہے۔ غرض یہ کہ وائرس ایک آسمانی عذاب آزمائش اور ابتلا کی صورت میں اربوں لوگوں کے لیے موت کا خطرہ بن چکا تھا۔ آئے روز یہ وائرس پھیلتا ہی چلا جا رہا تھا جس کے نتیجے میں سینکڑوں اور ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے جا رہے تھے۔
پاکستان بھی انہی ملکوں میں سے ایک ہے جہاں ہر عام اور خاص میں خوف کی کیفیت صاف اور واضح طور پر مشاہدے میں آئی۔ انہی دنوں میں ایران سے پاکستان کے زائرین کی براستہ تفتان وطن واپسی شروع ہوئی۔ ان زائرین میں سے چند افراد میں مبینہ طور پر کرونا وائرس کے اثرات مشاہدے میں آئے جس کے نتیجے میں وہ افراد بیمار پڑ گئے اور موت کے منہ میں بھی چلے گئے۔ ان افراد کے قریب رہنے والے بعض دیگر لوگوں میں بھی جلد ہی اس وائرس کے اثرات منتقل ہوگئے چنانچہ عمومی طور پر یہ کہا جانے لگا کہ پاکستان میں کرونا وائرس زائرین ایران میں زیارتوں کے بعد وطن واپسی میں پاکستان لے آئے۔
وفاقی حکومت نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت بلوچستان کو موثر اقدامات کرنے کی احکامات جاری کیے چنانچہ وزیراعلیٰ جام کمال خان نے ذاتی طور پر ایران سے آنے والے زائرین کو پاک ایران سرحد پر واقع پاکستانی شہر تفتان میں روک لیے جانے کے ہنگامی اقدامات کی نگرانی کی۔ خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد تفتان میں ایک خیمہ بستی قائم کی گئی جہاں زائرین کو قیام کے لیے روک لیا جاتا تھا اور مخصوص ٹیسٹ کے مراحل کے گزرنے کے بعدان افراد کو گھر جانے کی اجازت مل جاتی تھی۔ سرکاری طور پر ان زائرین کو کرونا سے بچانا بھی مقصود بتایا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ ان زائرین کے ذریعے ملک کے دیگر شہروں میں کرونا کے پھیلنے کا خطرہ بھی ہے چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ تمام زائرین کے ٹیسٹ لیے گئے اور جس شخص کو بھی کرونا وائرس میں مبتلا پایاگیا اسے خصوصی علاج کے لیے علیحدہ کردیا گیا۔
اس موقع پر ایک سیاسی بحث شروع ہوگئی اور یہ کہا جانے لگا کہ وزیر اعظم عمران خان کے معتمد زلفی بخاری نے تفتان میں تعینات ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ عملہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے زائرین جن میں سے تقریباً 99 فیصد کا تعلق فقہ جعفریہ سے تھا کو کرونا کے ٹیسٹ کے بغیر ہی اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دلوا دی۔ زلفی بخاری پر الزام لگایا کہ انہوں نے محض مذہبی تعصب کی بنیاد پر ملک کی اکثریت کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا۔
اسی دوران بیرون ملک سے پاکستان آئی ہوئی ایک تبلیغی جماعت کو کرونا وائرس میں مبتلا پایا گیا۔ یہ جماعت اسلام آباد کے علاقہ بارہ کہو میں واقع ایک مسجد میں قیام پذیر تھی۔ اب تبلیغ کے مخالفین نے اس واقعے کو بنیاد بنا کر یہ الزام لگایا کہ ملک بھر میں تبلیغی جماعتیں یہ مہلک وائرس پھیلانے کی ذمہ دار ہیں۔ یہ الزام بھی لگا کہ بھارت میں واقع تبلیغی مرکز سے جو دہلی کے قریب مسجد نظام الدین میں واقع ہے بھی کرونا وائرس میں مبتلا افراد جماعتوں سے نکل کر بھارت بھر میں وائرس پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔
چنانچہ حکومت پاکستان نے تبلیغی جماعت کی مرکزی مسجد واقع رائیونڈ کو عملاً بند کر دیا اور چاروں طرف سے مسلح پولیس اور سکیورٹی کے اداروں نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ تبلیغ میں آئے ہوئے سینکڑوں مقامی اور غیر ملکی ساتھیوں کو مسجد کے اندر ہی نظر بند کر دیا گیا کیونکہ یہ تصور کر لیا گیا تھا کہ ان تمام افراد میں کرونا وائرس موجود ہے۔ اسی طرح کی صورت حال تقریباً ہر شہر میں واقع تبلیغی مرکز کو سرکاری طور پر پیش آئی جس کی وجہ سے اللہ کے راستے میں نکلنے والے افراد کو ایسی مشکلات کا شکار بنا دیا گیا جس کے نتیجے میں وہ افراد کے جو تبلیغی مراکز میں اور ملک بھر کی مختلف مساجد میں نظر بند کر دیئے گئے تھے رشتے داروں اور عزیز و اقارب کو شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں یہ معلوم نہ ہوا کہ ان کے رشتے دار کس حال میں ہیں اور کہاں ہیں۔ یہ افراد جن میں خواتین بھی شامل تھیں اپنے باپ بیٹوں بھائیوں کی مارے مارے تلاش کرتے رہے مگر سرکاری طور پر ان کے ساتھ کوئی تعاون نہ کیا گیا۔ تلاش کرنے والے تھک ہار کے بیٹھ گئے اور مضطرب رہے تاوقت کہ ان کے عزیز و اقارب ہفتوں بعد اپنے گھر لوٹ آئے۔
بارہ کہو کی مسجد میں بیرون ملک سے آئی ہوئی جماعت کو سرکاری طور پر بتایا گیا کہ وہ 14 دن نظر بند رہیں گے۔ بعد میں ٹیسٹ ہوں گے جو افراد اس وائرس سے نجات پاچکے ہوں گے انہیں اپنے گھر جانے کی اجازت ہوگی جب کہ دیگر افراد کو مزید دو ہفتے کے لیے مسجد میں ہی روک لیا جائے گا۔ کم و بیش یہ صورت ان تمام جماعتوں کے ساتھیوں کے ساتھ پیش آئی جو کہ مختلف شہروں کے مختلف مساجد میں دعوت و تبلیغ کے غرض سے قیام پذیر تھیں۔
عمومی طور پر یہ جماعتیں تین دن کے لیے مساجد میں آتی ہیں۔ تین دن کے بعد وہ کسی دوسری مسجد میں منتقل ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ بعض اوقات چار ماہ اور بعض دفعہ 40 دن اور دس دن یا محض تین دن کے لیے ہوتا ہے۔ مگر بعض جماعتوں کو کئی کئی ہفتے مساجد میں نظر بند رکھا گیا جہاں ان کی دیکھ بھال کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دوران ایک بھارتی ٹیلی ویژن پر مذاکرہ ہوا جس میں شریک ایک ہندو اور اس مخصوص فرقے کے افراد نے یہ الزام لگایا کہ تبلیغی جماعت پاکستان اور بھارت میں کرونا وائرس پھیلانے کی ذمہ دار ہے۔ اس پروپیگینڈا کے پیچھے ناصرف دین بیزار عناصر تھے بلکہ بعض اقلیتی فرقے بھی تھے جو آئے روز ملک میں فرقہ واریت کی فضا پیدا کرنے کے جنون میں رہتے ہیں۔
حکومت میں بعض وزرا نے بھی تبلیغ کے خلاف اپنے بغض کے اظہار کا موقع ضائع نہیں کیا بلکہ کاری ضربیں بھی لگانے کی کوشش کی۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں پورے ملک میں تبلیغی مراکز میں سرگرمیاں معطل کردی گئیں۔ لاہور میں فرقہ واریت پھیلانے والے پولیس افسروں اور ملازموں نے بھی تبلیغی جماعت کے ساتھیوں پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیئے۔ انہیں ہتھکڑیاں پہنائی گئیں اور مار پیٹ کے بعد تھانوں میں بند کردیا گیا۔ ان کا جرم یہ بتایا گیا کہ آپ لوگ کرونا وائرس پھیلا رہے ہیں۔ یہ الزام ناصرف مضحکہ خیز اور بے ہودہ تھا بلکہ سائنسی اعتبار سے حکومت کے لیے ڈوب مر جانے کا مقام بھی تھا
تبلیغی جماعت کے اکابرین نے اس صورت حال کا نہایت صبر اور تحمل سے مقابلہ کیا اور اپنی جوابی کارروائیاں نوافل اور دعاﺅں تک محدود رکھیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ تبلیغی جماعت کے اکابرین نے جماعت کے خلاف ہونے والے اس پروپیگینڈا کے جواب میں ایک لفظ تک نہیں کہا۔ اس صورت حال میں بعض جگہ پر خود حق شناس لوگوں نے ٹی وی چینلز پر حق بات کہی۔ بھارت کے ایک ٹی وی چینل پر مذاکرہ کے ہندو مبصر نے تبلیغی جماعت کو وائرس پھیلانے کا ذمہ ٹھہرانے والوں سے سوال کیا کہ اگر بھارت میں کرونا تبلیغی جماعت پاکستان سے لائی ہے تو ایران میں اسے کون لے گیا ہے کیونکہ تبلیغی جماعتوں کا ایران میں داخلہ بند ہے۔ اس مذاکرہ کے دیگر شرکا جو تبلغی جماعت پر کرونا کے حوالے سے الزامات لگا رہے تھے خاموش رہے اور اس مبصر کے اس سوال کے جواب میں کھسیانی بلی کے مانند دائیں بائیں دیکھنے لگے۔
دنیا بھر میں معتصبانہ میڈیا نے رائیونڈ اور تبلیغی جماعت کے خلاف بھر پور پروپیگینڈا کیا حالانکہ ایسا کرنے والوں کے پاس اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی سائنسی اور عقلی دلیل موجود نہیں تھی۔
اب اللہ تبارک و تعالیٰ کے بہت بڑے احسان اور مہربانی کے نتیجے میں دنیا بھر میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں کرونا وائرس دم توڑ رہا ہے۔ کئی معتصب اور گمراہ افراد یہ بات تسلیم نہیں کریں گے کہ پاکستان میں کرونا وائرس کے خاتمے کی ایک وجہ اللہ پاک کی وہ مہربانی اور احسان ہے جو ملک بھر کے علمائے کرام اور دین دار افراد کے رونے دھونے اور عاجزانہ دعاﺅں اور نوافل کے نتیجے میں ہوا۔ اب وہ لوگ جن کی آنکھوں پر تعصب کی عینک ہے یا دین سے واقف نہیں ہیں وہ کب اس حقیقت کو تسلیم کریں گے؟
الحمد اللہ تمام تبلیغی مراکز پوری طرح کھل چکے ہیں اور وہاں معمول کی تبلیغی سرگرمیاں بھی شروع ہیں۔ کاش وزیراعظم عمران خان اور ان کے وہ ساتھی جنہوں نے تبلیغی جماعت کے خلاف پروپیگینڈا کو ختم کرنے کا کوئی اقدام نہیں کیا تھا اب اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ کرونا وائرس غریب مسلمانوں، علما کرام اور دین دار افراد کی وجہ سے خلاصی ملی ہے۔ بہر حال اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنے گناہوں پر شرمسار ہونے اور توبہ استغفار کا سلسلہ جاری رکھنے کی اب بھی شدید ضرورت ہے۔ اس موقع پر بہت مناسب ہوگا کہ تمام علما کرام مساجد میں کرونا وائرس کے اثرات ختم ہونے پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ وزیر اعظم عمران خان اور تمام وزرائے اعلیٰ سے گزارش ہے کہ وہ ملک میں کرونا وائرس کے خاتمے پر یوم تشکر منائیں اور خصوصی نوافل پڑھیں۔