سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے اپنے بھائی اور پارٹی صدر شہباز شریف کی گرفتاری پر ردعمل میں کہا ہے کہ 'کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے ہمیں جھکایا جا سکتا ہے۔'
آج شہباز شریف کو گرفتار کر کے اس کٹھ پتلی نظام نے APC کی قرارداد کی توثیق کی ہے۔ شہباز شریف نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ جیل کے اندر ہوں یا باہر، APC میں کئیے گئے تمام فیصلوں پر عمل درآمد ہو گا۔ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے ہمیں جھکایا جا سکتا ہے۔
— Nawaz Sharif (@NawazSharifMNS) September 28, 2020
نیب نے شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ اور آمدنی سے زائد اثاثوں کا کیس درج کر رکھا تھا، تاہم انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت حاصل کی ہوئی تھی، جس میں گذشتہ ہفتے عدالت نے توسیع دی۔ آج لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ان کی عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔
نیب کی طرف سے سپیشل پراسکیوٹر سید فیصل رضا بخاری جبکہ شہباز شریف اپنے وکلا امجد پرویز اور اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ کمرہ عدالت میں سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ اور مریم اورنگزیب سمیت دیگر لیگی رہنما بھی موجود رہے۔
شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے ان کے گذشتہ دو ادوار کی کارکردگی پیش کی اور کہا کہ اگر عدالت چاہے تو امجد پرویز ایڈووکیٹ بتائیں گے کہ کیسے آمدن سے زائد اثاثوں کی کہانی بنائی گئی۔جسٹس سردار احمد نعیم نے ریمارکس دیے کہ ہم نہیں چاہتے، آپ دلائل دیں۔ جس پر اعظم تارڑ نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ 'ریفرنس دائر ہو چکا ہے، اب شہباز شریف کی گرفتاری کی کیا ضرورت ہے؟ نیب کی بدنیتی واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔'
جسٹس فاروق حیدر نے استفسار کیا کہ احتساب عدالت میں فرد جرم عائد ہو چکی ہے؟ جس پر اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ ریفرنس کی کاپیاں تقسیم ہو چکی ہیں اور فرد جرم کی کارروائی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی حکومت کے انتخابات قریب آ رہے ہیں اور حکومت شہباز کو جیل میں ڈالنا چاہتی ہے۔ کمرہ عدالت میں موجود شہباز شریف نے درخواست کی کہ انہیں بولنے کی اجازت دی جائے۔
جسٹس سردار احمد نعیم نے ریمارکس دیے کہ آپ کے وکیل نے دلائل دینے ہیں، اگر کوئی بات رہ جائے گی تو آپ کر لیجیے گا۔ اس کے بعد شہباز شریف کے وکلا پینل کے دوسرے رکن امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کیا اور بتایا کہ 'ان کے موکل کا نام اسی کیس میں ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا، تاہم لاہور ہائیکورٹ نے یہ اقدام غیر قانونی قرار دیا۔'
امجد پرویز نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ 'قانون کے مطابق پراپرٹی بنانا کوئی جرم نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں زیر کفالت کے لفظ کی بڑی اچھی تشریح کی ہے۔ نیب کو دستیاب دستاویزات کے تحت شہباز شریف کے خاندان کے افراد کو ان کے زیر کفالت نہیں کہا جا سکتا۔'
ان کا مزید کہنا تھا: 'ٹیکس ریٹرن کے مطابق نصرت شہباز 2004 سے فائلر ہیں، حمزہ شہباز 1996 سے، سلمان شہباز 1996 سے، جویریہ علی اور رابعہ عمران 2007 سے ٹیکس فائلر ہیں۔'
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف کے بچے ان کے زیر کفالت نہیں تھے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق بے نامی دار کے الزام کو ملزم کی بجائے پراسکیوشن نے ثابت کرنا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق چار بنیادی عناصر طے کر دیئے گئے ہیں جو بے نامی دار کی وضاحت کرتے ہیں۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ 'ہزاروں صفحات پر مشتمل 58 والیومز میں شہباز شریف کے خلاف کوئی دستاویزی شہادت موجود نہیں ہے۔ ریفرنس میں تمام رائے تفتیشی افسر کی اپنی لکھی ہوئی ہے جبکہ ضابطہ فوجداری کی دفعات 161 اور 164 کا کوئی بیان موجود نہیں ہے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'شریف گروپ آف کمپنیز وہ کمپنیاں ہیں، جن میں شہباز شریف کا کوئی عہدہ نہیں ہے اور ان کے کسی ریکارڈ سے شہباز شریف کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔'
امجد پرویز نے مزید کہا کہ 'وعدہ معاف گواہوں کے بیانات قلمبند کرواتے وقت شہباز شریف کو طلب ہی نہیں کیا گیا۔ وعدہ معاف گواہ یاسر مشتاق نے شہباز شریف پر کوئی الزام نہیں لگایا جبکہ دیگر وعدہ معاف گواہ مشتاق چینی اور شاہد رفیق نے بھی اپنے بیانات میں شہباز شریف کو کسی بھی الزام میں شامل نہیں کیا جبکہ نیب کے مرکزی گواہان بھی شہباز شریف کو نامزد نہیں کر رہے۔'
مریم اورنگزیب کے روسٹرم کے قریب کھڑے ہونے کا نوٹس
اس موقع جسٹس سردار احمد نعیم نے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب کے روسٹرم کے قریب کھڑے ہونے پر نوٹس لیتے ہوئے استفسار کیا کہ 'کیا آپ کے پاس موبائل فون ہے؟' جس پر مریم اورنگزیب نے جواب دیا کہ 'میں فون استعمال نہیں کر رہی۔'
اس مکالمے کے بعد امجد پرویز نے دلائل کا سلسلہ دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا کہ 'نیب نے 26 کروڑ 90 لاکھ روپے کے اثاثے غیر قانونی طور پر حاصل کرنے کا الزام لگایا ہے جبکہ شہباز شریف نے اپنی زرعی اراضی میں جدید کاشتکاری کے طریقے اپنائے ہیں اور اسی بنیاد پر اپنے ٹیکس ریٹرن جمع کروائے ہیں۔ عدالت چاہے تو لوکل کمیشن مقرر کر کے شہباز شریف کی کاشتکاری کی نوعیت کی جانچ کروا سکتی ہے۔'
انہوں نے الزام عائد کیا کہ 'نیب کو پتہ تھا کہ اگر الیکشن کمیشن، ایف بی آر، ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کو جمع کروائی گئی دستاویزات کو درست تسلیم کر لیا تو نیب کا جرم نہیں بنے گا۔ نیب نے ٹیکس ریٹرنز، الیکشن کمیشن میں اثاثوں کی تفصیلات اور ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ میں ٹیکس کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے جبکہ نیب نے بزنس انکم سے بھی کوئی تفتیش نہیں کہ بلکہ دفتر میں بیٹھ کر تفتیشی نے کارروائی مکمل کر دی ہے۔'
امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ 'عبوری ضمانت کی درخواست دائر کرنے سے پہلے تک نیب کا یہ کیس ہی نہیں تھا کہ شہباز شریف اپنے بچوں کے اثاثوں کے مالک ہیں لیکن ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کرنے کے بعد نیب نے میری پیٹیشن پڑھی اور موقف تبدیل کر لیا۔'
ساتھ ہی انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ نیب کے الزامات بے بنیاد ہیں اس لیے شہباز شریف کی عبوری ضمانت کو مستقل کیا جائے۔
'اڑھائی سو سال لگ جائیں گے، کرپشن ثابت نہیں کرسکیں گے'
اس کے بعد شہباز شریف عدالت کی اجازت سے روسٹرم پر آئے اور کہا کہ 'ہم نے پروکیورمنٹ میں پاکستان کے ایک ہزار ارب روپے بچائے، انہیں اڑھائی سو سال لگ جائیں گے لیکن یہ عوامی سطح پر میرے کے خلاف کرپشن ثابت نہیں کر سکیں گے۔'
شہباز شریف نے کہا کہ 'مجھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ میرے بے نامی اثاثے ہیں۔ 15-2014 میں اگر میں نے اختیارات سے تجاوز کیا ہوتا تو مجھے پھر اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تھی۔'
انہوں نے کہا کہ 'سندھ کے مقابلے میں پنجاب میں گنے کی قیمت زیادہ رکھی گئی اور سبسڈی بھی نہیں تھی، جس سے میرے بیٹوں اور بڑے بھائیوں کی شوگر ملز کو 90 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ میں نے اپنے ضمیر کی آواز پر نہ کسانوں کو نقصان پہنچایا اور نہ قومی خزانے کو۔'
شہباز شریف نے عدالت کے روبرو کہا کہ 'میرے والد ایک غریب کسان کے بیٹے تھے، جنہوں نے قرضہ لےکر کام شروع کیا اور 1970 میں لوہے کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا، لیکن ہمارے لوہے کے ادارے کو نیشنلائز کر دیا گیا۔ میرے والد نے کہا کہ ہم نے جینا مرنا یہیں ہے تو میرے والد نے چھ مزید فیکٹریاں لگائیں، جس کے بعد بینکوں میں ہمیں انجینئرڈ ڈیفالٹ کروایا گیا۔ '
انہوں نے کہا کہ 'میں کوئی فرشتہ نہیں ہوں، انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔ میں نے اپنی تنخواہیں اتفاق ٹرسٹ کو نہیں بلکہ گلاب دیوی ہسپتال کو عطیہ کیں۔'
نیب پراسیکیوٹر کے دلائل
نیب پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری نے دلائل کے آغاز میں مقدمے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کو 5 اکتوبر 2018 کو آشیانہ اقبال سکینڈل میں گرفتار کیا گیا تھا، 6 دسمبر 2018 تک وہ جسمانی ریمانڈ پر رہے، 14 فروری کو لاہور ہائی کورٹ نے انہیں آشیانہ اور رمضان شوگر ملز کیس میں ضمانت پر رہا کیا۔'
فیصل رضا بخاری نے مزید بتایا کہ '15 جنوری 2019 کو شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی۔ 12 جنوری 2018 کو ایف ایم یو نے شکایت بنائی، جس میں مشکوک ترسیلات سامنے آئیں۔ جس پر عدالت نے ملزم کو 12 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دیا اور 23 اکتوبر 2018 کو انکوائری کی منظوری دے دی گئی۔'
انہوں نے بتایا کہ 'شہباز شریف کے خلاف نیب آرڈیننس کی دفعہ 9 اے کے تحت انکوائری شروع کی گئی، جس میں ان سمیت دیگر کے خلاف منی لانڈرنگ کا الزام بھی لگایا گیا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیصل رضا بخاری کے مطابق شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کے بعد تین اپریل 2019 کو انکوائری منظور ہوئی اور اسی دن حمزہ، سلمان، فضل داد، قاسم قیوم، محمد عثمان، مسرور انور و دیگر کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہ شہباز شریف 1990 میں دو اعشاریہ 212 ملین روپے کے اثاثے تھے۔ 2018 میں شہباز شریف کے اثاثے سات اعشاریہ 32 بلین روپے تک پہنچ گئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ شہباز شریف نے 11 صنعتی یونٹس اور چار بے نامی کمپنیاں بنائیں جبکہ شہباز شریف اور ان کے شریک ملزم مشتاق چینی نے 603 ملین کا جعلی قرضہ حاصل کیا۔
نیب پراسکیوٹر نے اپنے دلائل کے دوران کہا کہ '2004 میں یہ جلاوطنی میں تھے تو فلیٹ کہاں سے آ گئے؟ 2008 میں سلمان شہباز کے اثاثوں میں اضافہ ہوا، یہ وہی وقت ہے جب شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے۔ جب سلمان شہباز نوجوان تھے تو اس وقت اتنا بزنس، اتنا پیسہ کیسے کما لیا؟ نصرت شہباز گھریلو خاتون تھیں انہوں نے کوئی بزنس نہیں کیا، شہباز شریف گفٹ دیتے رہے۔'
عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'یہ سارا کچھ ہمارے علم میں ہے، آپ امجد پرویز کے دلائل کا جواب دینا چاہیں تو وہ دے دیں۔'
جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 'جی این سی، گڈ نیچر کمپنی کے ذریعے شہباز شریف اور ان کے خاندان نے 1.8 بلین روپے کی منی لانڈرنگ کی۔ 124 ملین روپے کی انکم ظاہر کی گئی ہے مگر اس کا ذریعہ نہیں بتایا۔ 78 ملین روپے زرعی انکم کا دعویٰ کیا گیا جبکہ 2008 میں شہباز شریف کی انکم 14 ملین روپے تھی۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'نیب نے شہباز شریف کی زرعی انکم کی رپورٹ پٹواری سے حاصل کی ہے۔ ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت منظور ہونے کے بعد شہباز شریف نے نیب کو اپنے کاروبار سے متعلق بتایا ہی نہیں۔'
نیب پراسیکیوٹر کے مطابق 'شہباز شریف کہتے ہیں کہ غیرملکی فلیٹس کے لیے انہوں نے قرض لیا مگر اس کی کوئی دستاویزات بھی فراہم نہیں کرسکے۔ شہباز شریف جب جلاوطنی میں تھے تو انہوں سے وہ فلیٹس کیسے خرید لیے؟'
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نصرت شہباز، جویریہ علی، رابعہ عمران اور سلمان شہباز کو نوٹس جاری کیے گئے مگر کوئی جواب نہیں دیا گیا جبکہ نیب طلبی کے تمام نوٹسز عدالتی ریکارڈ کا حصہ بھی بنائے گئے ہیں۔
جسٹس سردار احمد نعیم نے استفسار کیا کہ شہباز شریف کا جب ریمانڈ مانگا گیا، تب انکوائری کی کیا صورت حال تھی؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ انکوائری وارنٹ اور طلبیوں سے متعلق تمام ریکارڈ عدالت میں موجود ہے۔
دونوں طرف سے دلائل مکمل ہونے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی عبوری ضمانت خارج کر دی، جس کے بعد نیب حکام نے ملزم شہباز شریف کو کمرہ عدالت میں حراست میں لیا۔