پاکستان کے قبائلی ضلع وزیرستان میں ایک عمر رسیدہ ماں نے لاپتہ بیٹے کی بازیابی کے لیے پولیس اور فوج کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے کہ ان کو زندہ بیٹا چاہیے لیکن انہیں اس کی لاش ہی ملی۔
بائیس سالہ غلام حسین دو ہفتے قبل اپنے گھر سے ذاتی گاڑی میں وانا بازار جا رہے تھے کہ راستے میں لاپتہ ہوگئے۔ چار دن بعد ان کی والدہ وانا پریس کلب پہنچیں اور بیٹے کی لاپتہ ہونے کی فریاد مقامی انتظامیہ، پولیس اور فوج کے سامنے رکھی۔
وہ اپنے ساتھ غلام حسین کے سات سالہ بیٹے کو بھی لائیں اور روتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ دو سال پہلے ان کا ایک اور بیٹا نامعلوم افراد کے ہاتھوں وانا بائی پاس پر فائرنگ میں ہلاک ہوا تھا۔ اب اگر غلام حسین کو کسی نے مار ڈالا تو بیٹوں کے سائے سے محروم ہو جائیں گی کیونکہ ان کے بس یہی دو بیٹے تھے۔
انہوں نے اپنے بیٹے کی تصویر کو اپنے سینے سے لگا رکھا تھا اور ہاتھ جوڑ کے بتا رہی تھیں کہ ان پر رحم کیا جائے ان کے بیٹے کو زندہ بازیاب کرایا جائے۔ مگر دو دن پہلے وانا بازار سے کوئی آٹھ کلومیٹر دور علاقہ کوت میں ایک کنویں سے غلام حسین کی لاش ملی ہے۔
غلام حسین کی والدہ کے مطابق ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔
وانا میں ضلعی پولیس آفسر شوکت علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس نے اپنی طرف سے نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے مگر تاحال کسی قسم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غلام حسین کی والدہ سے رابطہ ہوا ہے مگر وہ کسی کے خلاف ایف آئی ار درج کروانے کے لیے تیار نہیں تھیں البتہ انہوں نے بتایا کہ وہ مشورے کے بعد پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے یا نہ کرنے کا بتا دیں گی۔
خاتون کے احتجاج پر کوئی ردعمل نہیں
صحافی رضیہ محسود کے مطابق اس ماں کا تعلق مٹک خیل قوم سے ہے۔ اس ماں نے اپنے بیٹے کو کھونے کے بعد اپنے اکلوتے پوتے کی جان کی بھیک مانگنے کے لیے وانا کیمپ کے باہر تنہا بیٹھ کر احتجاج کیا۔ مدد کی اپیل کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’خدارا آپ تو میرے لیے کچھ کریں۔ اگر آج میری یہ حالت ہے کہ میں بے بس ہوں، ظلم کا شکار ہوں، اکیلی ہوں اور اپنے بچوں اپنے پوتے کے لیے نکلی ہوں تو کل آپ کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنوبی وزیرستان خاص کر وانا کی اگر بات کی جائے تو یہاں پر خواتین پر کچھ ذیادہ ہی پابندیاں لگی ہیں۔ لوگ یہاں خواتین کے معاملے میں بہت حساس ہیں لیکن آج انہی کے علاقے سے ایک ماں پریس کانفرنس کرنے نکل آئی جس کی کسی نے نہ سنی اور نہ ہی اعلیٰ حکام نے نوٹس لیا۔
قبائلی خواتین پوچھتی ہیں کہ حقوق انسانی کی تنظمیں آخر کیوں اس خاتون کی آواز نہیں سن رہیں؟ وزیرستانی عورت آخر اتنی کمزور اور اکیلی کیوں؟
چند روز قبل شمالی وزیرستان میں ایک خاتون کو ڈیوٹی سے واپسی پر قتل کر دیا گیا تھا۔
وانا میں باقی معاملات میں مشران کا کافی اتحاد و اتفاق دیکھنے کو ملتا ہے مگر آج ایک عورت وہاں اکیلی کھڑی ہے اس کے لیے کوئی جرگہ نہیں ہوا کوئی اتفاق دیکھنے کو نہیں ملا۔ کیا اس وجہ سے کہ وہ عورت غریب ہے اور اس کا سوائے اس چھوٹے پوتے کے اور کوئی نہیں؟
ایک اور قتل، اغوا
دوسری جانب صحافی دلاور خان وزیر کے مطابق شمالی وزیرستان میں میرعلی سب ڈویژن کے علاقے ناوراک میں نامعلوم افراد نے پاکستان تحریک انصاف کے کارکن محب الرحمن کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا ہے۔
تحریک انصاف میرعلی سب ڈویژن کے جنرل سیکٹری اسد وزیر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس نے تحقیقات شروع کی ہیں لیکن تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔
شمالی وزیرستان میں ہی ایک اور واقعے میں 23 سالہ رضا اللہ کو اپنے والد کی دکان سے مسلح لوگوں نے اٹھا لیا۔ عیدک گاؤں سے تعلق رکھنے والے رضا اللہ بی ایس سی کے طالب علم ہیں اور چند دنوں سے ان کے امتحان بھی چل رہے تھے۔ اس اغوا کی وجہ سے وہ دو پیپر نہیں دے سکے ہیں۔
رضا اللہ کے چھوٹے بھائی ذکا اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شام کے چار بجے تھے کہ اچانک دو گاڑیوں میں تیرہ سے پندرہ سوار مسلح افراد آئے تھے۔
ذکا اللہ نے بتایا کہ ان کے والدین، بہن بھائی بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ والد کی حالت اتنی خراب ہے کہ اب دکان میں آنا بھی چھوڑ دیا ہے۔