پرائیویٹ سکول یا جدید دور کے ٹھگ؟

 پاکستان میں اگر پوچھا جائے کہ سب سے بڑا فراڈ کون سے ہیں تو شاید آپ یقین نہیں کریں گے کہ تعلیم بہت اوپری نمبروں پر آتی ہے۔

سکول کی لازمی اشیا میں سٹیشنری کے ساتھ اب ماسک اور ہینڈ سنیٹائزرز بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔(تصاویر: اے ایف پی)

تقریباً چھ ماہ بند رہنے کے بعد سکول کھل چکے ہیں۔ ہر گھر میں ایک رولا پڑا ہوا ہے کہیں کتابیں شارٹ ہیں، کہیں کاپیاں تو کہیں یونیفارم، سکول والے والدین کو کبھی ایک دوکان کی طرف دوڑاتے ہیں کبھی دوسری، والدین شہر کی سڑکیں ناپ ناپ کر تنگ آ چکے ہیں مگر چیزیں ہیں کہ پوری ہی نہیں ہو رہیں۔

حد تو یہ ہے کہ سکول کی لازمی اشیا میں سٹیشنری کے ساتھ اب ماسک اور ہینڈ سنیٹائزرز بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔ چند روز تک میڈیکل سٹورز اور دوکانوں والے ہول سیل والوں سے 50 فیصد منافعے پر بھی ماسک اور ہینڈ سنیٹازرز اٹھانے پر تیار نہیں تھے مگر جب سے یہ سکول کے بچوں کا آئٹم بنا ہے پھر سے مال بنانے والوں کی چاندی ہو گئی ہے۔

واک تھرو ڈس انفیکٹنٹ گیٹ جن کے بارے میں ماہرین چیخ چیخ کر تھک گئے کہ اس کا کرونا کے کنٹرول میں کوئی کردار نہیں مگر پھر بھی سکول والے اپنی انٹری پر یہ گیٹ لگا کر اسی طرح والدین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں مصروف ہیں جس طرح وہ فرنٹ ڈیسک پر جاذب نظر مگر ایک الٹی سیدھی انگریزی بولنے والی خاتون بٹھا کر جھونکتے ہیں۔

ایک نجی محفل میں سوال اٹھایا گیا کہ کرونا پاکستان میں دوبارہ سراٹھائے گا یا نہیں تو ایک دور اندیش صحافی دوست بولا کہ اگر اپوزیشن نے عوام کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کی تو کرونا کی خبریں ایسی پھیلائیں جائیں گی کہ لوگ دوبارہ کنڈی لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایک اور بولا کہ سکول بھی ایک دو ماہ بعد پھر بند ہو جائیں گے کیونکہ سکولوں کی فیسوں کی وصولی رکی ہوئی تھی اورحکومت دباؤ میں تھی جب وہ فیسیں وصول کر لیں گے تو سکول بھی بند کر دیے جائیں گے۔

 پاکستان میں اگر پوچھا جائے کہ سب سے بڑا فراڈ کون سے ہیں تو شاید آپ یقین نہیں کریں گے کہ تعلیم بہت اوپری نمبروں پر آتی ہے۔ آئین پاکستان کےآرٹیکل 25 اے کے تحت پانچ سے 16 سال تک کے بچوں کی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے مگر ریاست یہاں اور کون سی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے جو یہ رہ گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آج سے پانچ سال پہلے اکنامک سروے آف پاکستان میں جو کہ وزارت خزانہ کی سرکاری دستاویز ہوتی ہے اس میں لکھا گیا تھا کہ شہروں میں 60 فیصد اور دیہات میں 24 فیصد بچے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ 2020  کی اسی دستاویز کے مطابق پاکستان میں پرائمری، مڈل اور سیکنڈری سکولوں کی تعداد اڑھائی لاکھ سے زیادہ ہے۔ جبکہ پرائیویٹ سکولوں کی تنظیم آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ 97 ہزار پرائیویٹ سکول کام کر رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ ریاست یہ ذمہ داری کتنے احسن طریقے سے نبھا رہی ہے۔

معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر طارق رحمٰن کا کہنا ہے کہ 2013 میں انھوں نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا تھا جس کے مطابق مڈل کلاس اپنی آمدنی کا 60 فیصد سے اوپر اور ایلیٹ کلاس ایک فیصد بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ مڈل کلاس جس کی قوت خرید سے معیشت کا پہیہ گھومتا ہے اس کا اپنا پہیہ پرائیویٹ سکولوں نے جام کر رکھا ہے ان حالات میں جو مرضی ماہر معیشت لے آئیں، پالیسیاں بنا لیں معیشت ترقی کر ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ مڈل کلاس جب تک اپنی آمدنی کے غالب حصے سے اپنا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے کوشاں نہیں ہو گی ملکی معیشت میں بہتری نہیں آئے گی۔ مثال کے طور پر وہ اپنے گھر بنائے، ان کی تزئین و آرائش کرے، وہ گھومے پھر ے ہوٹلنگ کرے تو رووزگار کے کتنے ہی مواقع پیدا ہوتے ہیں کتنی ہی صنعتوں کا پہیہ گھومتا ہے لیکن جب ان کی آمدنی کا غالب حصہ پرائیویٹ سکول لے جاتے ہیں تو باقی بچ جانے والے پیسے سے وہ دو وقت کا کھانا ہی بمشکل کھا سکتے ہیں۔

 زیادہ عرصہ پرانی بات نہیں کوئی بیس سال پہلے جن پرائیویٹ سکولوں کی ابتدا گلی محلوں سے ہوئی تھی اب ان کا دائرہ کار پورے ملک میں ہے، بلکہ انھوں نے اپنی یونیورسٹیاں بھی بنا لی ہیں۔ جو بیس سال پہلے گلی کا سکول چلاتے تھے اب وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر اسمبلیوں میں پہنچ چکے ہیں۔ نگران دور آئے تو ان کی وزارت بھی پکی ہوتی ہے کیونکہ بااثر طبقے کے بچے وہاں مفت پڑھتے ہیں۔ یہ مالکان بخوبی جانتے ہیں کہ کون سا بچہ ان کے لیے کتنا اہم ہو سکتا ہے۔

گنجان شہروں میں ان سکولوں کے آگے ٹریفک دو گھنٹے صبح اور دو گھنٹے دوپہر کوجام رہتی ہے مگر مجال ہے کہ شہری انتظامیہ کا کوئی افسر یہاں آ کر یہ کہہ سکے کہ جب آپ کے پاس پارکنگ نہیں ہے تو یہاں سکول کھولا ہی کیوں تھا۔ وجہ یہ کہ ان کے بچے بھی یہاں مفت پڑھتے ہیں جن کی کسر وہ باقی بچوں کی جب چاہے فیسیں بڑھا کر نکال لیتے ہیں۔ جب آپ کسی بچے کو سکول داخل کرانے جاتے ہیں تو ٹیوشن فیس کے ساتھ سیکورٹی، رجسٹریشن، سالانہ فیس اورکمپیوٹر فیس الگ الگ سے وصول کی جاتی ہے لگتا ہے اگلے مہینوں میں اس میں کرونا فیس کا اضافہ بھی ہوہی جائے گا۔

اب یہ پڑھاتے کیا ہیں؟ میری بچی کی ایک ٹیچر نے اس کے ذہن میں ڈال دیا کہ ملالہ پلانٹڈ ہے جس کے پیچھے یہودی ہیں۔ میرا بیٹا چونکہ ابتدائی جماعتیں امریکہ سے پڑھا ہوا تھا اس لیے اس کا انگریزی کا لہجہ امریکی تھا۔ اب بجائے اس کے کہ باقی بچے اس سے سیکھتے، ٹیچر سمیت سب ا س کامذاق اڑایا کرتے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان اونچی دوکانوں پر کس قدر پھیکے پکوان دھڑلے سے بیچے جاتے ہیں۔

ہم بھاری فیسیں دے کر جن سکولوں کے ہاتھ میں اپنا آنے والا کل دیے بیٹھے ہیں اس کا اندازہ بچوں کے بھاری بھرکم بیگ سے ان کی خمیدہ ہوتی کمریں دیکھ کر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جو سکول آج تک یہ تک محسوس نہیں کر سکے کہ تیس کلو وزن کا ایک بچہ دس کلو کا بستہ کیسے اٹھائے گا، وہ بچوں کی خاک تربیت کرتے ہوں گے۔

مغرب میں کوئی بھی بندہ دس پاؤنڈ سے وزنی چیز اٹھانے سے درگزر کرتا ہے کہ اس سے کمر کے مہرے ہل سکتے ہیں اور اگر ایک بار مہرے ہل جائیں تو سرکار اسے عمر بھر کے لیے معذور قرار دے دیتی ہے اور یہاں تو بیس پونڈ کا بستہ دس سال کا ایک بچہ اٹھائے پھرتا ہے۔ پتہ نہیں اس کے مہرے سلامت ہیں یا نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ پرائیویٹ سکولوں کے لیے بچوں کی حیثیت پیسے کمانے کے لیے ایک مہرے سے زیادہ ہر گز نہیں ہے۔

ماہرین صحت کے مطابق سکول کے بچے کا بیگ اس کے وزن کے مقابلے میں 15 فیصد سے زائد ہر گز نہیں ہونا چاہیے یعنی اگر بچے کا وزن 23 کلو ہے تو سکول بیگ ساڑھے تین کلو سے زائد نہ ہو۔ گذشتہ برس پشاور ہائی کورٹ میں ایک ڈاکٹر نے رٹ کر دی کہ اس کے پاس ایسے بچوں کے کیس بہت زیادہ آ رہے ہیں جن کی کمر کے مہرے ہل چکے ہیں، کئی ایسے ہیں جو سیدھا چل نہیں سکتے اور وہ ایک جانب جھک کر چلتے ہیں، اکثر کے قد ان کی عمر کے مقابلے میں بہت کم بڑھے ہیں جس کی وجہ یہ بھاری بھرکم سکول بیگ ہیں۔ جس پر ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو باقاعدہ قانون بنانے کی سفارش کی۔

لیکن اگر قانون بن بھی جائیں تو بھی تو یہاں مسئلہ تو عمل در آمد کا ہوتا ہے اور سکول مالکان جتنے بااثر ہو چکے ہیں ان کے خلاف قانون بہت کمزور محسوس ہوتا ہے اور اب تو یہ سکول مالکان بڑے بڑے اخبارات اور چینلوں کے مالکان میں بھی شمار ہوتے ہیں ۔

ایک غیر ملکی ادارہ اے اور او لیول کے امتحانات لیتا ہے جس کے لیے فیسیں بھی غیر ملکی کرنسی کے حساب سے لی جاتی ہیں لیکن وہ اتنا نہیں کر سکتے کہ امتحانی سینٹر بچوں کے گھر کے ایڈریس دیکھ کر بنائے جائیں بلکہ کوئی اٹکل پچو قسم کی ترتیب ہوتی ہے۔ شہر کے مشرق میں رہنے والوں کے امتحانی سینٹر مغرب میں اور مغرب میں رہنے والوں کے جنوب میں کر دیے جاتے ہیں۔ اب ڈیڑھ گھنٹے کا پیپر اور سڑکوں پر تین گھنٹے کی ذلالت، آگے نہ پارکنگ نہ پانی، نہ ہی انتظار گاہ، جس کی وجہ سے جہاں اے اور او لیول کے پیپر ہو رہے ہوتے ہیں وہاں ٹریفک جام ہو جاتی ہے۔

پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی کارستانیوں کی فہرست یوں تو خاصی طویل ہو جائے گی بس اتنا جان لیں کہ یہ جدید دور کے ٹھگ ہیں۔ اگرچہ قدیم دور میں ٹھگ چلتے پھرتے نظر آتے تھے کیونکہ ایک جگہ ٹھہرنے سے ان کے پکڑے جانے کا امکان ہوتا تھا اس لیے یہ پورا ہندوستان گھومتے رہتے تھے مگر آج کے ٹھگوں کواس بات کا کوئی خوف نہیں کیونکہ وہ ایک مقدس لبادے میں ہیں جن کو ٹھگ کہہ دینے پر ہتک عزت کا مقدمہ بھی دائر ہو سکتا ہے، اس لیے لٹتے رہنے میں ہی عافیت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ