پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے سابق سربراہ جمال شاہ نے پاکستانی فنکار انور جلال شمزہ کی تصاویر کی واپسی کے فیصلہ پر تنقید کرتے ہوئے انہیں خرید کر مستقل طور پر پی این سی اے میں رکھنے کی تجویز دی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’مذکورہ تصاویر 1985 سے پی این سی اے میں موجود ہیں اور یہ کس حیثیت میں موجود ہیں کا کوئی قانونی ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔‘
’جتنا عرصہ میں ادارہ کا سربراہ تھا مجھے کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا جس سے ثابت ہو کہ شمزہ کی تصاویر مستعارا پی این سی اے کو دی گئی تھیں۔‘
یاد رہے کہ پی این سی اے کی موجودہ انتظامیہ نے آنجہانی پاکستانی فنکار انور جلال شمزہ کی دس تصاویر ان کی برطانوی بیوہ میری شمزہ کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی این سی اے کی موجودہ سربراہ فوزیہ سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ 1985 میں ایک نمائش کے بعد سے مذکورہ تصاویر پی این سی میں مستعارا رکھی گئیں ہیں اور میری شمزہ کی کئی اپیلوں کی روشنی میں ادارے کے بورڈ آف گورنرز نے تصاویر کی واپسی کا فیصلہ کیا۔
جمال شاہ کا خیال تھا کہ تصاویر واپس کرنے کا فیصلہ کچھ جلدی میں کیا گیا ہے۔ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ میری شمزہ ان تصاویر کی مالک ہیں لیکن پی این سی اے نے ان تصاویر کی واپسی کے سلسلہ میں کچھ زیادہ ہی جلدی دکھائی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو انور جلال شمزہ کی تصاویر کو خریدنا چاہیے تاکہ یہ پی این سی اے جیسے قومی ادارہ کی ملکیت بن جائیں۔
جمال شاہ جو 2016 سے 2019 تک پی این سی اے کے سربراہ رہے نے کہا کہ انہوں نے ادارہ کو اپنے اور ان کے پاس موجود کئی دوسرے فنکاروں کے شاہکار دیے تھے۔
’میرا مقصد صرف فنکاروں کو قومی ادارہ کے لیے اپنے شاہکار دینے کی ترغیب دینا تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمال شاہ نے تصویروں کی واپسی کے سلسلہ میں اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اس سارے معاملہ میں جوڑ توڑ کا امکان موجود رہا ہے اور کچھ لوگ چاہتے تھے کہ یہ تصاویر پی این سی اے کے پاس نہ رہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ میری شمزہ مذکورہ تصاویر کی قانونی حق دار ہیں تاہم پی این سی اے اور حکومت کی کوشش ہونا چاہیے کہ یہ شاہکار قومی ادارہ میں موجود رہیں۔
پی این سی میں موجود بعض شاہکاروں کی چوری اور ان کی نقول کی موجودگی سے متعلق سوال پر جمال شاہ نے کہا کہ انہوں نے اس سلسلہ میں ایک تحقیق کروائی تھی اور کیس ایف آئی اے کو بھیجا گیا تھا۔
جمال شاہ نے کہا کہ چوری کے سلسلہ میں افواہوں کے باوجود انہیں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا جس سے تصاویر یا پینٹنگز کی نقول کی موجودگی ثابت ہوتی۔