سب گڑبڑ چل رہی ہے۔ ہم لوگ کچھ زیادہ ہی نازک ہو چکے ہیں۔ فئیر اینڈ لولی کے نام پہ تحریکیں چل گئیں، کہیں کوئی درخت کٹا تو اداس ہو گئے، آوارہ کتوں نے راہ چلتے لوگوں پہ حملہ کیا، انہیں محکمے نے مارا، تو سامنے تصویریں آ گئیں کہ ان کو زہر کیوں دے دیا، موٹے کو موٹا نہ کہو، پتلے کو پتلا نہ کہو، چھوٹے قد والے کو چھوٹا نہ کہو، لمبے کو لمبا مت بلاؤ مطلب کیا بھائی؟
یہ چونچلے مجھے ہضم نہیں ہو رہے۔ یہ سب بھرے پیٹ کی باتیں ہیں۔ جس کے گھر دانے پورے ہیں وہ ان سب ادب آداب میں پڑتا ہے ورنہ باہر سڑک پہ چلتے کسی عام بندے کو روکیں اور اس سے پوچھ لیں ذرا کہ ہاں بھائی، سامنے کتے کو ماریں تو تجھے دکھ ہو گا یا کتا تجھے کاٹے تو دکھ زیادہ ہو گا؟
ہمارے کئی نوجوان مینٹل کیس بن چکے ہیں۔ ڈپریشن اور انزائٹی پہ اتنی پوسٹیں نظر آتی ہیں کہ لگتا ہے سارے جہان کو دکھ ہی دکھ ہے۔ خوشی نام کا دیا سالا کسی کے گھر نہیں جلتا کبھی، دو گھنٹے بعد انہی کی وال پہ کسی ہوٹل میں عین کھانے کی پلیٹ کے اوپر کھل کھلاتے ہوئے تصویر چڑھ جاتی ہے۔ کیا ہے بھائی یہ؟ ابھی دو گھنٹے پہلے تم نے کہا تھا کہ ڈپریشن از رئیل، سوسائیڈ از ان ایویٹبل، اب تم کھانے سے چپکے ہوئے ہو؟ میں کس چیز کو سیریس سمجھوں؟ بندہ سچ مچ باؤلا ہو جاتا ہے۔ ہر طرف ڈپریشن کی آگاہی پڑھ پڑھ کے، نہیں بھی ہوتا تب بھی لوگ سر پہ سوار کر لیتے ہیں کہ اچھا اتنی علامتیں ہوتی ہیں؟ چلو یہ تو ہم میں بھی ہے، ڈپریسڈ قرار پا گئے فورا!
کسی شہر کی کسی گلی میں کوئی ایک حادثہ ہو جائے پورے ٹوئٹر پہ چیاؤں چیاؤں شروع ہو جاتی ہے۔ عورت مرد کا معاملہ ہے تو سارے مرد ایک دم حرام کے تخم قرار پاتے ہیں، ڈاکٹر مریض کا مسئلہ ہے تو سارے ڈاکٹر سیدھے پشت پہ لاتیں کھاتے ہوئے جہنم رسید کیے جاتے ہیں، پولیس عوام کا مسئلہ ہے تو کل محکمہ ہائے پولیس لعنتیں کھاتا ہے، کوئی پل گر گیا تو سارے ٹھیکیدار اکٹھے کرپٹ ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں جو ذاتی ٹینشن ہے اس کی ساری بھڑاس بھی ادھری آ کے نکالتے ہیں۔
جسے دیکھو گالم گلوچ، جسے دیکھو ڈپریشن، جہاں دیکھو مسئلے ۔۔۔ ابے شادیاں نہیں ہوتیں تمہارے گھروں میں؟ کبھی مل بیٹھ کے اماں باوا کے ساتھ نہیں بیٹھتے؟ جس وقت دوستوں سہیلیوں کے ساتھ قہقہے لگاتے ہو، تب کی تصویریں کیوں نہیں لگاتے؟
ہو یہ رہا ہے کہ جہان کا غم اپنے گلے میں ڈال کے ہر بندہ اس وقت سوفٹ ہوا ہوا ہے۔ کہیں گدھے کو مارنے کی ویڈیو وائرل ہو گئی تو وہ وہ بندہ ایسے ایسے تڑپیلے جملے کسے گا جس نے پتہ نہیں کتنے کتے بلیاں موٹر وے پہ گاڑی کے نیچے دیے ہوں گے لیکن مڑ کے پیچھے نئیں دیکھا ہو گا۔
کلچرڈ نظر آنے کے چکر میں ہر دوسرا نوجوان آج کل فیمینسٹ بنا ہوا ہے۔ کسی خاتون نے پیروں کی تصویر لگائی اور لکھ دیا کہ یہ پاؤں میری آزادی کی علامت ہیں تو نیچے تین سو کومنٹس آ جائیں گے، مور پاور ٹو یو! ابے کیسی پاور، کہاں کی پاور؟ باہر سڑک پہ تم ہی ہوتے ہو جو اکیلی گزرنے والی لڑکی کو آنکھوں ہی آنکھوں میں گھر چھوڑ کے آتے ہو اور یہاں پیروں پہ مور پاور ٹو یو؟ اگلی لائک کرے گی اور گھس جاؤ گے ان باکس میں؟
سب کچھ الٹا ہو رہا ہے میں بتا رہا ہوں، دماغ اس رفتار سے ہرگز نہیں بدل رہے جس تیزی سے لوگ دوغلے ہو رہے ہیں۔ ماڈرن نظریات کو ان کی روح جانے بغیر 99 فیصد لوگ اس چکر میں اپناتے ہیں کہ وہ تہذیب یافتہ لگیں لیکن اندر سے وہی سن زیرو کے زمانے والے نکلتے ہیں۔ اس کا نقصان کیا ہو گا کہ اوریجنل بندے ختم ہو جائیں گے، وہ لوگ جو وہی کہتے تھے جسے ٹھیک سمجھتے تھے۔ اب بولتے ہوئے سوچنا پڑتا ہے اور یہ خیال کی موت ہے۔
میں اپنے گھر کی عورتوں کو مکمل آزادی دینے کے حق میں ہوں۔ اتنی آزادی جتنی مغرب میں ہوتی ہے، جی ہاں! لیکن میں نے کبھی عورت مارچ میں شرکت نہیں کی۔ جہاں ان تنظیموں کے نمائندے موجود ہیں کہ جو بہرحال کسی نہ کسی کی امداد پر چلتی ہیں آپ انہیں سو فیصد اپنے حق میں کس طرح مان سکتے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیسے آتے ہیں تو سوچ کا اینگل بھی ساتھ لاتے ہیں۔ تو میں کیسے سمجھ لوں کہ ہاں یہ سب کچھ ایسے منوایا جا سکتا ہے؟ وہاں شریک ہونے والے کتنے مرد اپنی عورتوں کے ساتھ ٹھیک سلوک رکھتے ہیں، آپ کے پاس کوئی حساب ہے؟ وہاں آنے والے کتنے نوجوان ان اقدار پہ دل سے یقین رکھتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو صرف اپنی بندیوں کے سامنے سولائزڈ بننے کے لیے آتے ہیں؟ نہیں ہے یار سب کچھ سیدھا نہیں ہے۔
ایک اور نقصان جو ہم نے اس چکر میں کر لیا وہ گاؤں دیہات کی روائتی دانش کو ہوا میں اڑانا ہے۔ میں ایک جگہ ٹیوشن پڑھانے گیا، بچے کو چوٹ لگی، ان کی والدہ نے مکڑی کا جالا اتار کے زخم پہ لگا دیا، خون بہنا بند۔ اب میں حیران کہ یہ کیا ہے، مگر یہ ہے، میں اسے مانوں یا نہ مانوں، ہوا میرے سامنے ہے۔ آپ تھک ہار کے یا کٹ کھا کے بھی کہیں سے آئیں تو پیناڈول کھائیں گے، ہلدی والے دودھ سے آپ کو گھن آئے گی لیکن اثر اس کا دس گنا ہے، یہ بھی اب سمجھ آیا ہے۔ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو ہم اسی طرح مسترد کر چکے ہیں لیکن وہ اپنی جگہ مکمل سائنس ہیں۔
شروع میں فئیر اینڈ لولی کا ذکر ہوا، بات یہ ہے کہ بھائی جو گورا ہے وہ گورا ہے، جو کالا ہے وہ کالا ہے، آپ نہ کہیں تو بھی ہر کوئی اپنے رنگ کا بہرحال رہے گا اور اپنے احساس کمتری یا برتری کو مٹا بہرحال نہیں سکے گا۔ حقیقت چیک کرنی ہو تو کسی ہسپتال کے زچہ وارڈ کا پھیرا لگا کہ پوچھ لیں کہ مائیں گورے بچے پہ زیادہ خوش ہوتی ہیں یا کالے پہ؟ اپنے اندر سے آپ گورے کالے کی پسند ناپسند نہیں اکھاڑ سکتے جتنا مرضی سول ہو جائیں، کریموں کے بام بدلواتے پھریں، بات ساری یہی ہے۔
تعلیم کا بھی یہی کیس ہے۔ ہم سب دیکھا دیکھی ایم اے، ایم فل پتہ نہیں کیا کیا کرتے ہیں۔ چاچے کا پتر ایم اے ہے تو ہمارا ایم فل ہونا ضروری ہے لیکن یہی خرچہ اگر ایف اے بی اے کے بعد کسی کاروبار میں کر دیا ہوتا تو چانسز زیادہ تھے کہ آج بہتر کما رہے ہوتے۔
بچے کا اتنا وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں جب پتہ ہے کہ نوکریاں نہیں ہیں؟ اس لیے کیوں کہ بچہ کم بخت خود تعلیم کی اہمیت کے روگ لگائے بیٹھا ہے۔ او کاکا ادھر نئیں، باہر شاہر جاؤ، کوئی تگڑی ڈگریاں لو تو اہمیت ہے، ادھر پنجاب یونیورسٹی کی ڈگری پہ کتنا ایک کما لو گے؟ بندے بنو، کام لگو!
اور ہاں، ابھی بڑا کچھ رہ گیا ہے۔ کافی چیزوں کا حساب کرنا ہے جب بھی وقت ملا۔ ایک بات پلے باندھ لیں کہ جو کچھ بھی آپ پڑھ رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں، سب کسی خاص زاویے سے آپ کو علم دے رہے ہیں۔ کھرا کچھ نہیں، غیرجانب دار کچھ نہیں، یہاں تک کہ سچ بھی کچھ نہیں۔ سچ وہ ہے جو آپ کا ہے، بس اسے اپنے تک رکھیں اور جگ جگ جئیں۔