یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
افغانستان سے لے کر شام، آذربائیجان سے لے کر سنکیانگ اور کشمیر سے لے کر فلسطین تک مسلمانوں کی اجتماعی ابتر صورت حال کے پیش نظر یہ موضوع گہرے مطالعے اور بحث کا تقاضا کرتا ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی آبادی، تیل اور معدنی ذخائر سے مالا مال اور خوف خدا کا جذبہ رکھنے والی مسلمان قوم پریشان حال کیوں ہے؟
ان پر جب جی چاہے کوئی بھی فوجی چڑھائی کرتا ہے، ناپسندیدہ حکمرانوں کو بے دخل کرنے کے لیے عوامی تحریکوں کو بھڑکاتا ہے اور ان کے مذہبی اور قومی ورثے کو زمین بوس کر کے اپنی کامیابی کا جشن مناتا ہے۔
سن ستر کا ایران ہو یا عراق، افغانستان ہو یا ترکی ۔۔۔ شام ہو یا مصر، کسی حد تک ان ملکوں میں سیاسی استحکام تھا اور اندرونی وسائل کو بروئے کار لا کر معیشت بہتر ہو رہی تھی۔ بنیادی سہولیات کی دستیابی اور اداروں کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ہو رہے تھے۔ عوام میں اس قدر بے چینی یا بے یقینی کا عالم نہیں تھا جو موجودہ حالات میں محسوس کیا جا رہا ہے۔
سوویت یونین کا بکھرنا شروع کیا ہوا کہ افغان مزاحمت کے بعد عراق، لیبیا، شام اور ایران مغربی طاقتوں کے جنگی ہتھیاروں کی تجربہ گاہ بننے لگے اور یہ سلسلہ اب بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
مغربی دنیا میں فوجی مداخلت کا اکثر یہ جواز پیش کیا جاتا رہا ہے کہ اسلام جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا اور مسلم ممالک میں جمہوریت قائم کرنے سے انتہا پسندی، دہشت گردی اور غیر منصفانہ حکومتی نظام کی بیخ کنی کی جانی لازمی ہے۔
معروف دانشور نوام چومسکی کا خیال ہے کہ ’اس کے پس پردہ دراصل وہ رائے عامہ قائم کرنا ہوتا ہے جو ان ملکوں میں سیاسی مداخلت اور سیاسی بےچینی پیدا کرنے کا جواز پیش کرتا ہے۔‘
بعض حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیاں بھی مداخلت کی موجب بنتی ہیں مگر ان پالیسیوں کو اسلام کے زمرے میں ڈالنا مسلمانوں میں شک وشبہات کا باعث بنی ہیں جو واجب بھی ہے۔
نوام چومسکی کہتے ہیں کہ ’اصل میں چند ملکوں کی صوابدید پر رائے عامہ قائم کرنے کے ایسے کارخانے بنائے گئے ہیں جو اپنی بات منوانے کے لیے اسی طرح کا تصور یا نظریہ پیش کرتے ہیں جو ان کی پالیسی کے عین مطابق ہو اور جس کے لیے میڈیا اہم رول ادا کر رہا ہے۔‘
جمہوریت کا ’مغربی ماڈل‘ جس کو وہ اسلامی مملکتوں پر تھوپنا چاہتا ہے، خود مغربی ملکوں میں نئی کروٹ لے رہا ہے۔ اس پر الگ سے بات کی جاسکتی ہے کیونکہ مغرب میں انتہاپسند یا دائیں بازو والی جماعتوں کی جو سیاسی لہر اب زور پکڑتی جا رہی ہے وہ ان کے ماڈل کی نہ صرف نفی کرنے لگی ہیں بلکہ سخت گیر پالسیوں پر منحصر نئے ماڈل بنا کر جمہوریت، مذہبی رواداری اور برابری کے اصولوں کی مختلف تشریح بھی کرنے لگی ہیں۔ ان پالیسیوں کی جانب جہاں مقامی لوگ کھینچتے چلے جا رہے ہیں وہیں میڈیا ان کی سوچ اور نظریات کی آبیاری کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
جمہوری ملکوں میں میڈیا کا بڑا حصہ اصل میں جنرل گوبلز کا نیا جنم ہے جو کہتے تھے کہ ہر جھوٹی بات بار بار کہنے سے سچ بن جاتی ہے۔ ان کا یہ حربہ دوسری عالمی جنگ میں بڑی حد تک کامیاب رہا۔
اسلام کوجمہوریت کے منافی قرار دینے کا یہ نظریہ بار بار دوہرانے سے کسی حد تک ان کی بیشتر آبادی اس کو صیح مانتی ہیں حتی کہ خود مسلمانوں کی بڑی تعداد نے اس نظریہ کو من و عن قبول بھی کیا ہے۔
حالانکہ اس عقیدے کو مضبوط کرنے میں مغرب نواز اسلامی رہنماؤں نے اہم کردار ادا کیا جو اپنے ملکوں میں اسلامی طرز کی جمہوریت کا سرے سے قیام نہیں چاہتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے بادشاہت کو تھامے ہوئے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ جن ملکوں میں جموری نظام قائم ہوا ہے کیا وہاں اس نظام کو بغیر مداخلت کے چلنے دیا گیا ہے۔ اس پر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔
اکثر مثالیں موجود ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ مغربی جمہوریت کا ماڈل اسی صورت میں چلنے دیا جاتا ہے اگر ان کے چنے ہوئے یا چہیتے رہنما یا جماعتیں برسر اقتدار آتی ہیں ورنہ انتخابی عمل، اور جیتنے والے ان کے ماڈل کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔ حماس، اسلامک سالویشن فرنٹ یا اخوان المسلمین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
بیشتر مورخ مانتے ہیں کہ مسئلہ اسلام کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا ہے۔ اس کا تعلق نہ مذہب سے ہے اور نہ جدیدیت سے۔ اصل میں مسلمانوں کو جمہوریت سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی اور اس سازش میں سب سے نمایاں کردار مسلمان حکمرانوں نے ادا کیا جو عوام کی آزادی کو اپنے لیے شدید خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان حکمرانوں کو ہمیشہ کٹر مذہب پرستوں کی حمایت حاصل رہی ہے جنہوں نے اسلام کو سخت ترین مذہب کے طور پر پیش کر کے عوام کو اپنی مٹھی میں قید کر رکھا ہے ورنہ حقیقت میں اسلام نے جمہوری نظام حکومت کا بہترین ماڈل پیش کیا ہے جس کی بنیادیں انسانی آزادی، مساوات، جان و مال کا تحفظ اور فلاحی ریاست مقرر کی گئی ہیں۔
علمائے دین کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو مغربی جمہوریت سے تضاد نہیں بلکہ لبرل ڈیموکریسی کے ماڈل سے معاشرے کا تانا بانا بکھرنے کا خوف ہے۔
مغرب میں بیش بہا شہری آزادیوں، مساوی انسانی حقوق، ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی بیاہ اور مذہب تبدیل کرنے کے اختیارات سے مسلمان خطرہ محسوس کر رہے ہیں مگر جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے معاشرے کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ضروری نہیں بلکہ مسلمان اسلام کی بنیاد پر جمہوریت کا اپنا ماڈل بنا سکتے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مسلمان حکمران اپنے عوام کو جمہوری نظام دے کے انہیں سوچنے اور سمجھنے کی آزادی دینا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے عمران خان ’مدینہ کی ریاست‘ بنانے کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔ اس پر سب سے زیادہ تنقید ان دینی رہنماؤں کی جانب ہوتی ہے جو اپنی منشا کے تحت اسلام کی تشریح کرنے میں مشہور ہیں۔
مسلمان ملکوں میں ترکی نے تحریک خلافت کے خاتمے کے بعد ہی جمہوری نظام تشکیل دینے میں سبقت لی۔ بابائے قوم کہلانے والے کمال اتاترک نے مغربی طرز پر اصلاحاتی پیکیج متعارف کرا کے جمہوری اداروں کی بنیاد ڈالی۔ ملک کے اعلی طبقے نے ان کی حمایت کی مگر نچلے سطح پر اس نظام کو کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ موجودہ صدر رجب طیب اردغان عثمانیہ دور کے احیا نو کا خواب پال رہے ہیں۔
ترکی کے مقابلے میں ملائیشیا کے اعلی طبقے نے جمہوریت کی کبھی حامی نہیں بھری کیونکہ اسے خدشہ رہا کہ ملک میں کثیر نسلی برادریوں اور مذہب کے مابین توازن قائم کرنے میں شدید دشواری ہوسکتی ہے تاہم مذہب اور سیاست میں توازن پیدا کر کے معاشرے کو کسی حد تک بکھرنے سے بچا لیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گو کہ ایران میں منصفانہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی بدولت جمہوری عمل جاری رہا ہے اور وقت مقررہ پر نمائندہ چننے کی روایت قائم ہے مگر تمام اختیارات شوری نگہبان کے پاس رہنے سے اس نظام کو مغرب میں غیرجمہوری ہی تصور کیا جاتا رہا ہے۔
مشہور مصنف راین ٹینگہ پارہ لکھتے ہیں کہ اسلام اور جمہوریت کے بیچ کوئی تضاد نہیں مسئلہ صرف تہذیب اور ثقافت کا ہے جس کو نئے نظام کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے اور جس کی کئی مثالیں بیسویں صدی کےکیتھولک یورپ میں ملتی ہیں۔
جمہوری نظام کے تین اہم ستون جمہوریت، آزادی اور انصاف اسلامی نظام کی بنیاد رہی ہیں جن کے حصول کے لیے اجتماعی رائے، عدلیہ اور مساوات کی پاسداری کو اہم قرار دیا گیا ہے۔
حیدرآباد دکن کے ایک عالم دین مولوی عبدالغفار کہتے ہیں کہ ’جب پیغمبر اسلام نے اپنے دین کو متعارف کیا تو عدل و انصاف، مساوی حقوق اور اتفاق رائے سے رہبر چننے کو اپنے نظام کا اہم ستون قرار دیا۔ اسلام کا بہترین دور آٹھویں سے لے کر تیرہویں صدی تک رہا ہے جب مسلمان اپنے پیغمبر کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن تھے۔ پھر ہمارا زوال شروع ہوا جس نے ہماری دنیا کو تخت وتاراج کیا۔ ہماری قوم واپس جاہلیت کی جانب مڑ گئی جب بعض ملاؤں نے اپنی مناسبت سے دین اسلام کی تشریح کر کے مغربی پروپیگینڈا کی تقلید کی۔‘
اسلام نے انفرادیت کے مقابلے میں اجتماعیت پر زور دیا ہے تاکہ متفقہ رائے سے معاشرے کی نمائندگی اور مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔
قرآن میں بار بار اس کا ذکر ہے کہ اللہ کو انصاف سے لگاؤ ہے اور انصاف کرنے والوں پر اس کی عنایت ہے جس کی بدولت انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل پر زور دیا گیا ہے۔ ہارورڑ یونیورسٹی نے ایک تحقیق کے دوران اس بات کی تصدیق کر دی کہ دنیا کی عدالتی تاریخ میں قرآن میں انصاف برتنے سے متعلق آیات بہترین تشریحات ہیں۔
اسلام کی تعلیمات، تحفظ حقوق کی ضمانت، خواتین کا احترام اور مساوات کی تشہیر یا تبلیغ کی ذمہ داری دراصل علمائے کرام پر ہوتی ہے جو اگر سیاست سے زیادہ دین کی خدمت کرتے تو دین اسلام کے خلاف چلائے جانے والا پروپیگینڈا کبھی کامیاب نہ ہوتا۔