پنجاب کے شہر گوجرہ کا رہائشی مسیحی جوڑا مبینہ طور پر توہین مذہب پر مبنی میسجز کرنے پر سات سال سے جیل میں ہے جنہیں موت کی سزا سنائی گئی ہے اور سزائے موت کے فیصلہ کے خلاف ان کی اپیل لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
جبکہ ان کے چار بچے والدین کے بغیر پہلے پانچ سال لاہور کے نجی فلاحی ادارے میں مقیم تھے اور اب اپنی پھپھی کے گھر رہتے ہیں۔
مقامی عدالت سے سزائے موت پانے والی شگفتہ کوثر مسیح اور ان کے شوہر شفقت ایمینوئل کی اپیل لاہور ہائی کورٹ میں 2014 سے زیر سماعت ہے جس کی آئندہ پیشی 22 اکتوبر کو ہوگی۔
شگفتہ کے بھائی جوزف انوار جو بیرون ملک مقیم ہیں انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بہن شگفتہ اور بہنوئی شفقت کو مقامی عدالت نے مذہب سے متعلق مقامی شہری کو توہین آمیز میسجز کرنے پر سزائے موت سنائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں توہین مذہب کیس میں پیروی بھی خطرے سے خالی نہیں۔‘
’پورے خاندان کو مقامی افراد جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں کوئی وکیل اس معاملہ میں پیش ہونے کو تیار نہیں ہوتا۔ دوسری جانب اپیلوں پر فیصلے بھی کئی کئی سال بعد سنائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے انصاف ملنے میں تو تاخیر ہوتی ہی ہے پورا خاندان مشکلات کا شکار رہتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کی بہن کے چار بچے ہیں جو ذہنی دباؤ کے ساتھ کئی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پہلے لاہور ایک نجی ادارے میں رہے پانچ سال بعد انہیں وہاں رہنے کی اجازت نہ ملنے پر اب وہ پھوپھی کے گھر اپنے والدین کی راہ دیکھتے ہیں۔
ان کے مطابق ’تعلیم بھی متاثر ہوئی، غریب ہونے کی وجہ سے بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔‘
آسیہ مسیح کیس کی پیروی کرنے والے وکیل سیف الملوک ایڈووکیٹ ہی شگفتہ اور شفقت کی اپیل کی پیروی کر رہے ہیں۔
سیف الملوک نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں توہین مذہب کے نہ صرف ملزمان بلکہ وکیلوں کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب آسیہ مسیح کیس میں وہ سپریم کورٹ سے بری ہوئیں تو انہیں بھی ملک چھوڑنا پڑا اور وہ تین ماہ بیرون ملک رہنے پر مجبور ہوئے۔
’اسی طرح جب سابق گورنر سلمان تاثیر قتل کیس میں ممتاز قادری کو پھانسی ہوئی تو انہیں ’ملعون‘ تک قرار دیا گیا۔‘
سیف کے مطابق مذہبی طبقہ تو ایک طرف آسیہ مسیح کیس کی وجہ سے سینکڑوں وکلا ان سے ہاتھ تک نہیں ملاتے جبکہ ان کی سکیورٹی کے لیے اب بھی پولیس سکیورٹی یورپین یونین کی سفارش پر دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے ہوتے ہوئے ’ایک طبقہ ایسا ہے جو خود فیصلے اور سزائیں دینے کو فرض سمجھتا ہے۔‘
واضح رہے کہ توہین مذہب کے مقدمے میں آسیہ بی بی کو 2010 میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور آٹھ سال قید میں رہنے کے بعد اکتوبر 2018 میں پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے ان الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود انہیں بیرون ملک رہائش اختیار کرنا پڑی کیونکہ بعض ’مذہبی تنظیموں‘ نے ان کی رہائی کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
اسی طرح جوزف کالونی لاہور کے رہائشی ساون مسیح کو مقامی عدالت نے 2013 میں سزائے موت کا حکم سنایا تھا جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے اپیل پر سماعت کرتے ہوئے مقامی عدالت کے فیصلہ کو یکطرفہ کارروائی قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے ٹرائل کورٹ کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔ ساون مسیح نے بھی بریت کے باوجود تحفظ نہ ہونے کے خدشہ کا اظہار کیا۔
دوسری جانب توہین مذہب کے کئی مقدمات میں استغاثہ کے وکیل ’ختم نبوت لائرز فورم پاکستان‘ کے صدر غلام مصطفی چودھری سے اس بارے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ان خدشات اور عدم تحفظ کے احساس کی تردید کی۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جتنے توہین مذہب سے متعلق کیس ہیں ان میں بیشتر ملزمان کی بیرون ملک جاکر رہائش اختیار کرنے کی کوشش اور تحفظ کے نام پر پناہ لینے کے لیے ہوتے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’کسی ملزم یا کیس کی پیروی کرنے والے کو کبھی ہراساں نہیں کیاجاتا اگر کسی کو کیا گیا ہے تو کوئی عدالت میں درخواست یا تھانے میں ایف آئی آر کیوں درج نہیں کرائی گئی۔‘
’مسلمانوں کے مذہبی جزبات مجروح کرنے کے بعد مظلومیت کا ڈرامہ کیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں جس کے خلاف جرم ثابت نہ ہو اسے رہا کر دیا جاتا ہے جبکہ جو مجرم ثابت ہوجائے اس پر واویلا کیا جاتا ہے تاکہ عالمی سطح پر ہمدردیاں سمیٹی جا سکیں اور امداد حاصل کی جائے۔‘