سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کے الزام سے باعزت بری ہونے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی اگلی منزل کے حوالے سے چہ مہ گوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔ عدالت عظمی نے انتیس جنوری 2018 کو ان کی بریت کے غلاف اپیل بھی مسترد کر دی تھی۔
اس وقت آسیہ بی بی اپنے خاوند عاشق مسیح کے ساتھ پاکستان میں ہی موجود ہیں جبکہ ان کی دو بچیاں اس وقت کینیڈا میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
تاحال حکومت پاکستان کی جانب سے آسیہ بی بی کے حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
آسیہ بی بی کی منزل کینیڈا؟
گزشتہ ماہ امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کے لیے مضمون میں آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے لکھا تھا کہ آسیہ نے کرسمس اسلام آباد میں حفاظتی تحویل میں گزاری اور رہائی کی بعد ان کی ممکنہ منزل کینیڈا ہوگی۔
توقع یہی کی جا رہی ہے کہ آسیہ بی بی بہت جلد ملک سے چلی جائیں گی اور ان کی ممکنہ منزل کینیڈا ہوگی جہاں ان کی دونوں بیٹیاں موجود ہیں۔
کینیڈا کے دفتر خارجہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک بیان میں کہا ہے کہ 'وہ ہم خیال دوستوں کے ساتھ ملک کر اس معاملے پر کام کر رہے ہیں اور کینیڈا آسیہ بی بی کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہے۔'
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو بھی نومبر 2018 میں آسیہ بی بی کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ ان کو پناہ دینے کے لیے کینیڈا کی پاکستان سے بات چیت جاری ہے۔
نومبر 2018 میں سپریم کورٹ کے بریت کے فیصلے کے بعد برطانوی تنظیم برٹش پاکستانی کرسچن ولسن چوہدری نے کہا تھا کہ برطانوی حکومت نے بدامنی کے پیش نظر آسیہ بی بی کو پناہ دینے سے معذرت کر لی تھی۔
حکومت پاکستان کی جانب سے آسیہ بی بی پر کوئی بیان نہیں دیا گیا کہ وہ ملک میں کہاں موجود ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔ کراچی اور لاہور سمیت ملک کے چھوٹے شہروں میں چھوٹے پیمانے پر احتجاج جاری ہیں۔ کراچی میں مختلف مقامات پر احتجاج ہوئے جبکہ لاہور میں بھی چونگی امر سادھو پر روڈ بند کی گئی۔
تحریک لبیک کی اعلی قیادت یا تو نظر بند ہے یا جیلوں میں قید ہے جس کی وجہ سے تحریک لبیک ماضی کی طرح کوئی بڑا منظم احتجاج کرنے میں ناکام رہی ہے۔
جمیعت علماء اسلام (ف) کے رہنما مولانا غفور حیدری نے قومی اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'آنے والے جمعے کو اس فیصلے کے خلاف یوم احتجاج منایا جایے گا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو 'انصاف کا خون' قرار دیا۔