گذشتہ مہینے اسلام آباد میں قتل ہونے والی ایک 11 سالہ بچی کی میڈیکل رپورٹ میں تصدیق ہوئی ہے کہ اسے ریپ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
23 ستمبر کو اسلام آباد کے علاقے بری امام میں اقصیٰ کی لاش گھر میں لٹکی ہوئی ملی تھی، جس کے بعد پولیس نے بچی کے میڈیکل سے لے کر ملزمان کی شناخت اور گرفتاری تک کا عمل مکمل کر لیا۔
اعلیٰ پولیس حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بچی کی میڈیکل رپورٹ میں زیادتی کی کوشش ثابت ہوئی ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی میڈیکل رپورٹ کے مطابق پہلے بچی کے منہ پر ہاتھ رکھا گیا جس سے اس کی سانس بند ہوئی، بعد میں اس کا گلا دبا کر اُسے قتل کردیا گیا۔ قتل کرنے کے بعد ملزمان اقصی کو گھر کی دیوار میں نصب سریے میں دوپٹے سے لٹکا کر فرار ہو گئے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اقصیٰ کا ریپ کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ اس کی ٹانگوں پر زخموں ، خون اور انگلیوں کے نشانات موجود تھے۔ کیس کی تحقیقات کرنے والے ایس پی عمر گنڈاپور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تینوں ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں اور جمعےم کو اُنہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے تین دن کا جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کر لیا گیا۔
انہوں نےکہا کہ ملزمان کی سزا کو یقینی بنایا جائے گا، تینوں ملزمان پر زیادتی کی کوشش اور قتل کا مقدمہ ہے۔اس اندھے قتل میں ملزمان کو کیسے پکڑا گیا؟ اس سوال کے جواب میں ایس پی عمر نے بتایا کہ بچی کے والد کو پڑوس میں کچھ افراد پر شک تھا جس کے بعد علاقے کی جیو فینسنگ کی گئی تو اقدام قتل کے وقت ملزمان کی وہاں موجودگی کے شواہد ملے جس کے بعد انہیں ٹریس کر کے حراست میں لیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ملزمان محمد خورشید،شاہ سوار اور سید حماد نقوی بری امام کے رہائشی ہیں، ملزمان واردات کرکے جائے وقوعہ سے فرار ہوگئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزمان میں سے ملزم محمد خورشید ریکارڈ یافتہ ہے، وہ 2011 میں بھی ایک بچے کے ساتھ زیادتی کے الزام میں گرفتار ہوا لیکن بعد ازاں ضمانت پر رہا ہو گیا تھا۔ ایس پی عمر نے بتایا کہ تینوں ملزمان کا علیحدہ علیحدہ بیان ریکارڈ کیا گیا تو فرانزک رپورٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ سے بیان ملتا جُلتا تھا، لیکن ابھی مزید تفتیش جاری ہے، ملزمان نے قتل کے بعد جاتے جاتے متاثرہ والد کے گھر سے چوری بھی کی۔
بچی کے والد محمد یوسف کے مطابق وہ 23 ستمبر کو مزدوری کےلیے باہر گئے ہوئے تھے اور بچی گھر پر اکیلی تھی، گھر واپس آئے تو بچی کو مردہ حالت میں پایا اور جسم پر زخم کے نشان تھے۔ واضح رہے کہ واقعے کے بعد ڈی آئی جی آپریشنز وقار الدین سید نے ایس پی سٹی اور ایس پی انوسٹی گیشن کی زیر نگرانی دو انوسٹی گیشن ٹیمیں تشکیل دی تھیں۔