کمزور جمہوریت میں سیاسی کارکن کا کتنا قصور؟

موجودہ کرپٹ نظام صرف پارٹی مالکان نے نہیں بنایا بلکہ پارٹی کارکنان بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔

لاہور میں مسلم لیگ ن کی کارکن نواز شریف کے حق میں تین اکتوبر، 2020 کو احتجاج کرتے ہوئے (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

پاکستان میں جمہوریت انتہائی کمزور ہے جس کی وجوہات پر بات کرتا رہا ہوں۔ آج اس کمزور جمہوریت کی ایک اہم وجہ سیاسی کارکن کا غیرجمہوری اور غلامانہ رویے پر بھی بات کر لیتے ہیں۔

پاکستان کی صرف ایک سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کو ادارہ کہا جا سکتا ہے، باقی تمام پارٹیاں سیاسی جتھے ہیں، جو مختلف مفادات کے لیے باآسانی دستیاب ہوتے ہیں۔

ادارہ بننے کی کچھ شرائط ہیں۔ وہ سیاسی پارٹی جو ادارہ ہو اس میں آئین اور نظریہ شخصیت پر حاوی ہوتا ہے، اہم فیصلے کسی نظام کے تحت ہوتے ہیں، پارٹی کے تمام فیصلوں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے، جو پارٹی ممبران کو مطالبے پر فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ اندازہ لگائیں کہ فیصلے پارٹی آئین، نظریے اور مفاد میں ہوئے یا نہیں۔

پارٹی کی سربراہی ایک سے دوسرے شخص کو ایک نظام کے تحت منتقل ہوتی رہتی ہے۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں کوئی نظام موجود نہیں اور اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ پارٹی کارکن خود کو پارٹی میں حصہ دار نہیں سمجھتے بلکہ پارٹی مالکان کا بظاہر ملازم سمجھتے ہیں۔ اس رویے کی وجہ کچھ ہمارا تعلیمی نظام ہے اور کچھ ہماری ثقافت۔ اس رویے سے پارٹی مالکان بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور پارٹی کارکنوں سے بھیڑ بکری کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔

پارٹیاں اپنے کارکنان کو صاف اور شفاف الیکشن کی تیاری میں استعمال نہیں کرتیں بلکہ انہیں اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کس طرح کرنی ہے۔ کارکنان کی اخلاقیات یا ضمیر انہیں اس پر نادم اور ملال نہیں کرتا بلکہ ان کی نظر میں صرف طاقت کا حصول ہی سب سے اہم منزل ہے، جس تک پہنچنا ضروری ہے۔

صرف یہی نہیں پارٹی کارکنان ان لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دینے پر بھی آواز نہیں اٹھاتے جن کی شہرت اپنے حلقوں میں اچھی نہ ہو۔ یہ بھی ہماری خراب تعلیمی نظام کی دین ہے، جہاں اخلاقیات کی تربیت کسی اہمیت کی حامل نہیں۔ موجودہ کرپٹ نظام صرف پارٹی مالکان نے نہیں بنایا بلکہ پارٹی کارکنان بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ 

پارٹیوں میں عہدے پارٹی مالکان ان لوگوں کو دیتے ہیں جو ان کے وفادار ہوں اور یہی نظام نیچے تک چلتا ہے۔ کوئی بھی پارٹی کارکن اپنے آئین کے مطابق پارٹی میں الیکشن کرانے پر زور نہیں دیتا بلکہ چپ چاپ اس کرپٹ نظام کو ناصرف قبول کرتا ہے بلکہ اسے پروان چڑھانے میں بھی ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

پارٹی چل ہی نہیں سکتی اگر پارٹی کارکن کھڑے ہو جائیں اور مطالبہ کریں کہ تنظیم کو کسی قانون، قاعدے اور اخلاقیات کا پابند کیا جائے۔ اگر کوئی آواز اٹھائے بھی تو باقی پارٹی کارکن اس کا ساتھ نہیں دیتے جس کی وجہ سے کارکنوں کی آواز ہمیشہ کمزور رہتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں جب بھی پارٹیوں کو ادارہ اور جمہوری بنانے کی اہمیت پر زور دیتا ہوں تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے کارکن یہ توجیح دیتے ہیں کہ اگر ادارہ بننا اتنا ہی اہم ہوتا تو جماعت اسلامی سیاسی طور پر بہت کامیاب ہوتی۔ مگر یہ مثال اس لیے ٹھیک نہیں کہ صرف ادارہ بننا ہی ضروری نہیں کچھ دوسری چیزیں بھی بہت اہم ہیں۔

جماعت اسلامی اب تک کامیاب اس لیے نہیں ہوئی کہ یہ نہ مکمل طور پر اسلامی ہے اور نہ ہی عوامی۔ اور یہی وہ نظریات کا الجھاؤ اور تنظیم کی تنگ نظری ہے جس کی وجہ سے انہیں سیاست میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مگر اب تک ان کی بقا اسی لیے ہے کہ ان کی تنظیم بہت فعال ہے۔ کتنی پارٹیاں آئی اور گئیں مگر جماعت اسلامی آج تک موجود ہے۔ 

پاکستان کے موجودہ نظام میں تبدیلی ضروری ہے۔ یہ تبدیلی صرف ملک میں ہی نہیں ہوگی بلکہ سیاسی کارکن کو بھی اپنا رویہ جمہوری بنانا ہوگا اور اس کی ابتدا پارٹی کے اندر جمہوری روایات قائم کرنے سے ہوگی۔

مجھے موجودہ پارٹیوں کا جمہوری بننا مشکل لگتا ہے اسی لیے اب یہ کوشش ہے کہ ایک سیاسی پارٹی بنائی جائے جو عوامی بھی ہو اور جمہوری بھی تاکہ ایک نئی نوجوان قیادت اس ملک کو دی جا سکے۔

ائیر مارشل اصغر خان خود سیاسی طور پر کامیاب نہ ہوسکے مگر ان کی تحریک استقلال نے اس ملک کو بہت سے تربیت یافتہ سیاست دان دیے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کے کسی اصولی جدوجہد سے طاقت حاصل کریں۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں موجودہ صورت حال میں ایک خلا موجود ہے، جس میں ہمارے لیے کام کرنے کا موقع ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ