'چھاتی کا رنگ سیاہ پڑنے لگا تو فوراً ڈاکٹر کو دکھانے کا فیصلہ کیا'

کینسر کی مریضہ دلشاد ایک طرف علاج کروا رہی تھیں تو دوسری جانب بیٹے کی شادی کی تیاریاں بھی جاری تھیں۔

طبی ماہرین کے مطابق چھاتی کا کینسر 90 فیصد خواتین میں 'بنائن' یعنیٰ کینسر کی بے ضرر قسم ہوتی  ہے(تصویر انڈپینڈنٹ اردو/انیلا خالد)

دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کے لیے شہروں کے ہسپتالوں میں جانا ہمیشہ سے ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ راستوں کی صعوبت، غربت اور شہروں میں صحیح رہنمائی نہ ملنے کی اکثر دیہاتی شکایت کرتے ہیں۔

ان تمام وجوہات کی بنا پر مرض بڑھتا رہتا ہے اور مریض ڈاکٹر کے پاس جانے کی ہمت نہیں کرپاتا۔ دلشاد بی بی کو جب اندازہ ہوا کہ ان کی چھاتی میں ایک گلٹی نکل آئی ہے، جس کو چھونے سے اگرچہ انہیں کسی قسم کا درد محسوس نہیں ہوا تاہم انہیں فکر ضرور لاحق ہوگئی۔

بالاخر پشاور کے ایک نجی ہسپتال کے ڈاکٹر نے انہیں آپریشن کا مشورہ دیا لیکن دلشاد کے مطابق وہ اس کے لیے تیار نہ تھیں کیونکہ ان کے بڑے بیٹے کی شادی سر پر تھی۔ 43 سالہ دلشاد بی بی کے مطابق کینسر کی تشخیص کی خاطر ان کی بائیوپسی ہوئی اور نتائج آنے تک وہ بیٹے کی شادی میں مصروف رہیں۔ اس دوران ایک مہینے کا عرصہ گزر گیا اور چھاتی کا رنگ سیاہ پڑنا شروع ہوگیا۔

دلشاد بی بی کے شوہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس صورتحال میں وہ اس قدر پریشان ہوئے کہ فوراً ڈاکٹر کے پاس جانے کا تہیہ کر لیا۔ 'یہ غالباً فروری کا آغاز تھا۔ کرونا کی وجہ سے سب کچھ بند تھا اور ڈاکٹر اپنی جگہ پرموجود نہیں تھے۔ ہمیں سخت ذہنی اذیت اور پریشانی ہوئی، ہم ہسپتالوں میں مارے مارے پھر رہے تھے۔  آخرکارشہر کے ایک بڑے نجی ہسپتال کے ڈاکٹر سے بات ہوئی اور انہوں نے آپریشن کے لیے تاریخ دے دی۔'

اس عرصے میں دوست احباب نے دلشاد اور ان کے اہل خانہ کو مشورہ دیا کہ اگر کینسر کا صحیح علاج کم پیسوں میں کرنا ہے تو شوکت خانم چلے جائیں لہذا عین آپریشن کے دن دلشاد اپنے شوہر کے ہمراہ شوکت خانم گئیں لیکن شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث انہیں ناکام لوٹنا پڑا۔ واپس گاؤں جانےاور وقت کا ضیاع کرنے سے انہوں نے نجی ہسپتال میں آپریشن کا فیصلہ زیادہ مناسب سمجھا۔

نتیجے کے طور پردلشاد بی بی نے ایک ایسے ڈاکٹر سے آپریشن کروایا جو آنکالوجسٹ یعنیٰ کینسر کے ماہر ڈاکٹر نہ تھے بلکہ ایک جنرل سرجن تھے، علاوہ ازیں یہ ایک مہنگا ترین ہسپتال تھا ۔

دلشاد بی بی کے شوہر نے، جو اپنے فیصلے پر اب پشیمان تھے، بتایا کہ 'اس بار شناختی کارڈ بھی شوکت خانم ہسپتال لے گئے لیکن ہسپتال کی انتظامیہ نے انہیں یہ کہہ کر مایوس کیا کہ ایک بار اگر باہر کے کسی ہسپتال یا ڈاکٹر سے کینسر کا علاج شروع کیا جائے توایسے مریض کو شوکت خانم ہسپتال کے اصولوں کے مطابق داخلہ نہیں مل سکتا۔ مجبوراً ہمیں وہیں علاج جاری رکھنا پڑا جہاں سے آپریشن کروایا تھا۔'

دلشاد ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔  آپریشن اور کیموتھراپی سے لے کر علاج کے دوسرے مراحل پر لاکھوں روپے کا خرچہ آتا ہے۔ دوسری جانب شہر جانے کے لیے سفری مشکلات سے الگ گزرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایک دور افتادہ علاقے کی خاتون ان تمام مسائل کو سر کر بھی لیں تو بھی ایک مشکل مرحلہ رہنمائی اور صحیح جگہ سے علاج کا ہوتا ہے۔

اگر اس نکتے پر وہ کوئی غلطی کر جائیں تو ان کا مرض پورے جسم میں پھیل کر انہیں خطرات سے دوچار کر سکتا ہے۔  حالانکہ طبی ماہرین کے مطابق چھاتی کا کینسر 90 فیصد خواتین میں 'بنائن' یعنیٰ کینسر کی بے ضرر قسم ہوتی ہے، لیکن جو باقی 10 فیصد خواتین ہیں ان میں بھی یورپی اور امریکی ممالک میں اموات کی شرح میں بہت حد تک کمی لائی گئی ہے۔

تاہم ان خواتین کے برعکس پاکستان میں زیادہ تر خواتین سہولیات کی کمی، بروقت تشخیص نہ ہونے اور صحیح رہنمائی نہ ملنے سے بھی کینسر کا شکار ہو جاتی ہیں۔

پاکستانی طبی ماہرین کی رائے

پشاور میں کینسر کے علاج کے لیے مشہور سرکاری ہسپتال ارنم(انسٹی ٹیوٹ آف ریڈیو تھراپی اینڈ نیوکلیئر میڈیسن)کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عاطف اللہ خان  نے چھاتی کے سرطان کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دراصل مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ایک بڑے طبقے کے پاس کینسر کے علاج کے لیے پیسے نہیں ہیں بلکہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ شعور نہیں ہے۔

'شعور نہیں ہے، ہمارے طب کے شعبے میں اور عوام الناس میں بھی۔ اگر عوام میں شعور ہوتاتو خواتین وقتاً فوقتاً اپنا معائنہ کرواتیں۔ اگر پاکستان کے طب کے شعبے میں شعور ہوتا تو کینسر کے میدان میں ہم باقی دنیا سے اس قدر پیچھے نہ ہوتے۔ ہمارے پاس میموگرافی مشینوں کی کمی ہے۔ اور اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پچھلے دس سال کے دوران خیبر پختونخوا میں میموگرافی کی صرف پانچ مشین خریدی گئی ہیں۔ ہمیں خود سے سوال کرنا ہے کہ کیا ہم اگلے دس سال بھی ایسے ہی گزاریں گے؟'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر عاکف نے کہا کہ امریکہ میں ہر 10 لاکھ کی آبادی کے لیے 60 میموگرافی مشین ہیں۔  میکسیکو جس کے مالی حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں وہاں بھی ہر 10 لاکھ کی آبادی کے لیے دس میموگرافی مشین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میکسیکو کا مقابلہ اگر ہم پاکستان اور خیبر پختونخوا سے کریں توخیبر پختونخوا کی تقریباً ساڑھے تین کروڑ ابادی کے لیے صرف 20 میموگرافی مشین ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ ہمیں کم از کم 35 مزید میموگرافی مشینوں کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اور بروقت سکریننگ ہو، جس سے کینسر کا مرض بڑھنے سے روک کر مریض کی جان بچائی جا سکے۔

 ڈاکٹر عاکف اللہ خان کا کہنا ہے کہ اگر خواتین میں چھاتی کے سرطان کی شرح کم کرنی ہے تو اس کے لیے حکومت کو ہر ضلع میں ایک بریسٹ کیئر کلینک کا آغاز کرنا ہوگا۔

'اس کی ابتدا دور افتادہ اضلاع سے کی جائے، کیونکہ سب سے زیادہ مسئلہ ان خواتین کو ہے۔ اس کے علاوہ ہماری صوبائی حکومت سے ایک درخواست ہے کہ ارنم سے بوجھ کم کیا جائے اور کچھ ذمہ داری حکومت اپنے محکمہ صحت کے حوالے کر دے۔ پشاور میں کینسر کے مریضوں کے لیے ایک ہاسٹل تعمیر کروانے کے لیے بھی ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں۔ بے شک ایک پلاٹ ہی دیں ہم غیر سرکاری سماجی اداروں کے ذریعے اس پر عمارت تعمیر کر دیں گے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت