پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں اس وقت ایک نئی روایت قائم ہوئی جب نیشنل ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے ایک ایسا کمنٹیٹر پینل بنایا گیا جس میں صرف خواتین شامل تھیں۔
اس خصوصی پینل میں سپورٹس صحافی سویرا پاشا کے ساتھ پاکستانی ویمن کرکٹ ٹیم کی کپتان ثنا میر اور مرینا اقبال بھی بطور کمنٹیٹر شامل تھیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مرینا اقبال نے بتایا کہ وہ پہلی خاتون کمنٹیٹر ہیں، جس نے اس فیلڈ کو پروفیشنلی اپنایا ہے بلکہ انہوں نے کمنٹیٹری کا ایک خاص کورس بھی کیا ہے۔
بقول مرینا: ’کرکٹ کھیلنا اور اس پر کمنٹری کرنا دو مختلف چیزیں ہیں، تاہم یہ ضروری نہیں کہ اگر آپ نے کرکٹ کھیلی ہو تب ہی آپ کمنٹری کر سکتی ہیں۔ اگر کسی بھی کھیل کو ایک طویل عرصے تک فالو کریں اور اس پر اپنی ریسرچ کریں تو آپ بہترین کمنٹری کر سکتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کرکٹ کھیلنے سے ایک فائدہ ضرور ہوجاتا ہے لیکن کرکٹ پر کمنٹری کے لیے کرکٹ کھیلنا ضروری نہیں۔ بس آپ کی معلومات درست ہونی ضروری ہیں۔‘
ایک خاتون کمنٹیٹر کی بات کو ایک مرد کمنٹیٹر کے مقابلے میں کتنی اہمیت دی جاتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں مرینا نے بتایا کہ ’اب لوگوں میں تھوڑا شعور پیدا ہو رہا ہے لیکن ابھی بھی کئی لوگ ایسے ہیں جو آپ کی بات کو آپ کے عورت ہونے کی وجہ سے رد کر دیتے ہیں کہ آپ تو لڑکی ہیں آپ کو کیا معلوم لڑکوں کے کھیل کے بارے میں؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر کرکٹ ایک کھیل ہے اور اس کے ایک ہی طرح کے قوانین ہیں، جس میں کوئی بھی غلطی کرسکتا ہے تو وہ غلطی مردوں اور عورتوں دونوں سے ہو سکتی ہے، لیکن لوگ صرف یہی دیکھتے ہیں کہ وہ بات لڑکی کہہ رہی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب سویرا کا بھی یہی خیال تھا، جنہوں نے بتایا: ’شروع کا ایک سال میرے لیے مشکل تھا کیونکہ مجھے اس مردوں کی فیلڈ میں اپنی جگہ بنانی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ میں کچھ غلط نہ بول دوں۔‘
سویرا نے کہا: ’اس فیلڈ میں آنا ہے تو مرد مار بننا پڑے گا۔ اپنا چھوئی موئی پن رونا دھونا گھر پر چھوڑ کر آئیں اور مرد مار کا مطلب یہ نہیں کہ جینز پہن لیں اور چھوٹے بال کٹوا لیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے اندر ایک خود اعتمادی اور ہمت کے ساتھ آئیں کہ اگر آپ کو رات کے دو بجے سکیورٹی کے ساتھ سٹیڈیم میں جانا پڑے تو آپ جا سکیں۔ جس دن آپ نے یہ سوچا کہ میں لڑکی ہوں، میں کیسے کروں گی اس دن آپ کا کیریر ختم ہوجائے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ جس دن عورت کام کرنے کا سوچتی ہے اسی دن سے اس کی جدوجہد شروع ہو جاتی ہے۔ ’ہو سکتا ہے ابو نہ مانیں۔ وہ مان گئے تو چاچا کو مسئلہ ہوگا، پھر پڑوسی اور دیگر لوگ۔ تو میری سب سے گزارش ہے کہ اپنے ارد گرد کی خواتین کو سپورٹ کریں۔ لڑکیوں کو ایک ہلکے سے دھکے کی ضرورت ہوتی ہے اور ان میں خود اعتمادی پیدا ہوجاتی ہے۔‘