’نورے نہ‘ سے نورینہ شمس: خواتین کھلاڑیوں کے لیے ایک مثال

مقامی اخباروں کو کارٹون بیچ کر پیسے جمع کرکے اپنا پہلا سکواش ریکٹ اور جوتے خریدنے والی نورینہ شمس پاکستان کی نامور سکواش پلیئر کیسے بنیں؟

کامیابی کا یہ سفر نورینہ شمس نے اتنی آسانی سے طے نہیں کیا بلکہ انتھک محنت، سچی لگن کے ساتھ ساتھ نورینہ کو آغاز میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے لڑکا بھی بننا پڑا(تصویر: نورینہ شمس فیس بک پیج)

تیمرگرہ کی نورینہ شمس آج  نہ صرف ایک جانا پہچانا نام ہیں بلکہ وہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سکواش کی ایک بہترین کھلاڑی کی حیثیت سے شناخت بھی حاصل کر چکی ہیں۔

11 سال کی عمر سے کامیابی کا یہ سفر نورینہ شمس نے اتنی آسانی سے طے نہیں کیا بلکہ انتھک محنت، سچی لگن کے ساتھ ساتھ نورینہ کو آغاز میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے لڑکا بھی بننا پڑا۔

ہمارے ہاں آج بھی بہت سارے لوگ لڑکیوں کے کھیل کے شعبے میں جانے کو معیوب سمجھتے ہیں۔ کھیل کو کیریئر بنانے والی خواتین تو کچھ زیادہ ہی گئی گزری تصور کیا جاتا ہے۔ اسی لیے نورینہ شمس جیسی بہت ساری لڑکیوں کو کھیل کے میدان میں اپنا نام بنانے کی خواہش تو بہت ہوتی ہے اور ان میں صلاحیت بھی ہوتی ہے لیکن ان میں سے بہت کم اپنے ارادے پر ڈٹ کر آگے بڑھ پاتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ معاشرتی دباؤ اور رویے ہیں جو پہلے تو لڑکی کو کھیل جیسے شعبوں میں مستقبل بنانے کے خیال سے ہی ڈرا دیتے ہیں اور اگر ایک آدھ لڑکی جرات کر بھی لیتی ہے تو ان کے گھر والے ان کا رہا سہا حوصلہ اور اعتماد توڑ دیتے ہیں۔

ایک بار اگر خوش قسمتی سے گھر کے لوگ ساتھ دے بھی دیں تو معاشرے کا رویہ اتنا ناقابل برداشت ہو جاتا ہے کہ اکثر اوقات بہت ساری لڑکیاں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

لیکن کہیں کہیں ایک عدد نورینہ شمس بھی جنم لیتی ہے۔ انہیں اپنے گھر والوں سے تھوڑا سا بھی اعتماد اور حوصلہ مل جائے تو پھر وہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتیں بلکہ وہ اپنے لیے راستے خود ہموار کرنے لگتی ہیں اور وہ مقام بنا لیتی ہیں کہ پھر لوگ آگے بڑھ بڑھ کر کہتے ہیں کہ 'ہاں نورینہ شمس تو ہماری بچی ہے۔ ہمارا فخر ہے اور ہمیں اس پر ناز ہے۔'

(تصویر: نورینہ شمس فیس بک پیج)


لیکن ان کا یہ ناز یہیں تک محدود ہوتا ہے۔ ایسا ہر گز نہ سوچیے گا کہ اگر ان کے ہاں پھر کوئی اور نورینہ شمس اس راستے پر نکلنے کا سوچے گی تو یہ لوگ اس کا ساتھ دیں گے۔ نہیں، بلکہ ہر نورینہ شمس کو اپنی اپنی لڑائی اپنے بل بوتے پر نئے سرے سے لڑنی پڑے گی۔

آپ کہیں گے کہ بھلا لوگوں کے ایسا سوچنے سے کیا ہو گا؟ اس سے بہت بڑا نقصان ہو گا۔ کب تک ہماری بچیاں اپنے خوابوں کو قربان کرتی رہیں گی اور جو اپنے خوابوں کے سفر پر نکل پڑتی ہیں وہ کب تک یہ ثابت کرتی رہیں گی کہ وہ بھی خواب دیکھ سکتی ہیں۔ وہ بھی ہمارا نام روشن کرسکتی ہیں۔ ہمارا فخر بن سکتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم ان  کا ساتھ دیں اور ان کے خوابوں پر پہرے بٹھانے کی بجائے ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کریں۔

جس لڑکی نے آگے نکلنا ہے وہ تو آگے نکل آئے گی۔ چاہے اس کے لیے اسے کچھ عرصے کے لیے اپنی شناخت ہی کیوں نہ بدلنی پڑے، لیکن وہ اپنا راستہ بنا لیتی ہے۔ جیسے کہ نورینہ نے اپنا راستہ بنایا۔

نورینہ شروع میں کرکٹ پلیئر تھیں، لیکن ایک لڑکی ہونے کے ناطے وہ اپنے سکول میں لڑکوں کی ٹیم میں نہیں کھیل سکتی تھیں، لہذا نورینہ کو ان کے کوچ نے کہا کہ اپنے بال کٹوا کر اور لڑکوں کے کپڑے پہن کر کرکٹ کھیلیں۔ بس نورینہ نے اپنا بھیس بدلا اور لڑکا بن گئی۔

(تصویر: نورینہ شمس فیس بک پیج)


کرکٹ کے کھیل سے نام کمانے والی نورینہ نے بہت جلد سکواش کے کھیل میں بھی اپنا نام بنا لیا اور وہ چند ہی سالوں میں بین الاقوامی سطح پر 120 کے رینک تک پہنچ گئیں۔

نورینہ شمس جب 11 سال کی تھیں تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی والدہ نے اپنے شوہر کے تعمیراتی کاموں کے کاروبار کو سنھبالا اور نورینہ سمیت اپنی تین اور بیٹیوں اور دو بیٹوں کی پرورش کی ذمہ داری سنبھا لی۔

نورینہ کو اپنی ماں کی مشکلات اور مالی حالت کا اندازہ تھا، اسی لیے ایک عرصے تک وہ مقامی اخباروں کے لیے کارٹون بنا کر کچھ پیسے بنا لیتی تھی تاکہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ اسی آمدن سے شروع میں نورینہ نے اپنے لیے ریکٹ اور کھیل کی دوسری ضروری اشیا خریدیں۔

ان سب مشکلات کا مقابلہ کرنے والی نورینہ شمس آج جس اعتماد اور وقار سے بات کرتی ہیں، انہیں دیکھ  کر آپ کو رشک محسوس ہوگا۔ آپ چاہیں گے کہ آپ کی بیٹی اور بہن بھی نورینہ جیسی پراعتماد اور اپنے آپ پر یقین کرنے والی ایک مضبوط اور کامیاب انسان بن کر ابھرے۔

نورینہ کا نام پشتو کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے 'نورے نہ۔' اس کا مطلب ہے ’اور نہیں۔‘ نورینہ سے پہلے بھی تین بیٹیاں پیدا ہوئی تھیں لہذا جب وہ پیدا ہوئیں تو ان کی دادی نے ان کا نام ’نورے نہ‘ رکھا۔ ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہے کہ اس طرح کے نام رکھنے سے لڑکیوں کے پیدا ہونے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا، تاہم یہ سراسر توہم پرستی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن اس سے ہٹ کر اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم نورینہ جیسی قابل اور باہمت لڑکیوں کا اعتماد چکنا چور کر دیتے ہیں۔ انہیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ ان کی خواہش یا ضرورت نہیں تھی کہ وہ پیدا ہوں اور خاندان کا حصہ ہوں، لیکن نورینہ نے ان تمام توہمات کا بھانڈہ پھوڑ کر یہ ثابت کر دیا کہ نورینہ جیسی بیٹیاں اپنے گھر والوں کے ساتھ ساتھ پوری قوم کا فخر بن سکتی ہیں۔

مجھے خوشی اور فخر اس بات پر ہے کہ نورینہ کے اعتماد اور حوصلے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ رکنے والی نہیں ہیں اور نہ ہی اب لوگوں کی باتوں کی اتنی پروا کرتی ہیں۔ وہ صاف صاف کہتی ہیں کہ ’کچھ تو لوگ کہیں گے لہذا ان کو کہنے دیں اور میں آگے بڑھ کے اپنے خواب پورے کرتی ہوں۔‘

نورینہ شمس نے 2018 میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی اور کھیل کے شعبوں میں لڑکیوں کو درپیش مشکلات اور ان کے حل کے لیے ممکنہ تجاویز پیش کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نورینہ شمس کو بہت سارے قومی اور بین الاقوامی اعزازت بھی ملے ہیں۔

 نورینہ نے اپنی زندگی کی مشکلات کو دل پر لینے کی بجائے اپنی طاقت بنایا ہے۔ نورینہ اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور صاحب استطاعت لوگوں کی مالی معاونت سے لڑکیوں اور لڑکوں کو اپنی تعلیم جاری رکھنے، کھیل کے شعبے میں آگے بڑھنے اور اس سے متعلقہ ضروریات پوری کرنے میں مدد کرنے میں سالوں سے سرگرم ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس سے مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں کہیں کسی نورینہ کو پیچھے ہٹنے سے بچانے اور آگے بڑھنے میں مدد کر رہی ہوں لہذا بدلے میں مجھے میری امید اور مضبوط ہوتی دکھائی دیتی ہے۔‘

وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب کسی لڑکی کو اپنے خوابوں کی دلیل نہیں دینی پڑی گی بلکہ لوگ اس کا ساتھ دیں گے اور معاشرے میں اسے ایک برابر کے انسان کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل