تین سو کی گنجائش کے ہال میں تقریباً 500 لوگ موجود ہیں۔ ہر دو افراد کے درمیان فاصلہ تین فٹ سے کم ہے۔ مصافحے اور معانقے بھی جاری ہیں۔ محض چند چہروں پر ماسک ہیں جبکہ بعض نے انہیں ایک کان پر ہی لٹکا رکھا ہے اور ناک اور منہ کھلے نظر آ رہے ہیں۔
'ہم زبانی کہتے ہیں اور لکھ کر بھی لگا رکھا ہے لیکن لوگ ایس او پیز پر عمل نہیں کرتے‘ یہ کہنا تھا مظفر منظور کا، جو اسلام آباد میں اس شادی ہال کے مینیجر ہیں جہاں دو روز پہلے ولیمے کی تقریب ہوئی تھی۔ اب ہم آپ کو اسلام آباد ہی میں ایک نجی سکول لیے چلتے ہیں اور دکھاتے ہیں کہ وہاں کس حد تک کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جا رہا ہے۔
سکول کی عمارت کے باہر کئی منی ویگنیں کھڑی ہیں جن میں سے یونیفارم میں ملبوس کئی چھوٹے بڑے طلبہ ایک ساتھ نکل رہے ہیں۔ چند موٹر سائیکل بھی نظر آئے اور بعض پر تو تین، تین بغیر ماسک لگائے لڑکے سوار تعلیمی ادارے پہنچے۔
عمارت کے مرکزی دروازے پر بچوں کا رش لگا ہے جسے وہاں موجود گارڈز کلئیر کرنے کی ناکام کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔ تعلیمی ادارے کی سربراہ نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کلاس رومز میں ایس او پیز پر پوری طرح عمل کروانے کا دعویٰ کیا۔ 'ہم سکول کے باہر بچوں کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ وہ کس گاڑی میں آتے جاتے ہیں اور باہر ماسک کا استعمال کرتے ہیں یا نہیں یہ معاملات والدین کو دیکھنا ہوں گے۔'
کرونا وبا کی شدت میں کمی کے بعد پاکستان میں 15 ستمبر سے تعلیمی اداروں کو مرحلہ وار کھول دیا گیا تھا اور ساتھ ہی شادی ہالوں میں تقریبات پر پابندیاں بھی ہٹا دی گئیں۔ ان اقدامات کے بعد گویا ملک میں ہر شعبے پر سے پابندی اٹھ گئی اور مزید وقت کے گزرنے کے ساتھ کرونا وائرس سے بچاؤکی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد ترک کیا جانے لگا۔
لاہور میں شوکت خانم کینسر ہسپتال سے منسلک ڈاکٹر سمعیہ نظام الدین کے خیال میں پابندیوں کے اٹھنے اور کیسز میں کمی کے بعد لوگوں میں شاید وہ خوف نہیں رہا اسی لیے احتیاطی تدابیر کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی اور کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
کیا کرونا واپس آ رہا ہے؟
وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات اسد عمر نے جمعرات کو ایک ٹوئٹر پیغام میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے سے متعلق خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وبا کے باعث ہونے والی یومیہ اموات کی تعداد 11 کے ہندسے تک پہنچ گئی ہے۔
پاکستان میں اس سال جون اور جولائی میں کرونا وبا کا عروج دیکھنے میں آیا تاہم ایس او پیز پر عمل در آمد کے بعد اگست میں بیماری کا زور ٹوٹنے لگا اور مثبت کیسز اور اموات میں بہت حد تک کمی آئی۔ ستمبر کا پہلا ہفتہ بھی کرونا وائرس کے کیسز اور ان سے جڑی اموات کے حوالے سے بہتر رہا لیکن تعلیمی اداروں اور شادی ہالوں کے کھلنے کے چند روز بعد ہی صورت حال یکسر بدل گئی۔
ستمبر کے دوران کئی دن ایسے گزرے جب روزانہ 500 سے زیادہ مثبت کیسز سامنے آنے لگے۔ بعض دن ایسے بھی تھے جب کرونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 8000 تک بھی پہنچی تاہم اموات کی یومیہ تعداد محدود ہی رہی۔
سیاست اور کرونا
پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان جمہوری تحریک کے تحت ملک بھر میں جلسوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ جلسے اور جلوسوں میں لوگ بہت بڑی تعداد میں ایک جگہ پر اکٹھے ہوتے ہیں اور ایسے میں معاشرتی دوری کو یقینی بنانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ جمعے کو حزب اختلاف کے گوجرانوالہ کے جلسے میں یہی کچھ دیکھنے میں آیا۔
گوجرانوالہ جلسے سے قبل کئی ایک وفاقی وزرا اور حکومتی اہلکاروں نے احتجاجی تھریک کے دوران کرونا وائرس کے پھیلنے سے متعلق خطرات کی طرف توجہ دلائی جب کہ اپوزیشن کی پارٹیاں بھی عوام کو ایس او پیز پر عمل کرنے کی اپیل کرتی رہی ہیں۔
کرونا کا مستقبل
انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے پوچھا کہ کیا کرونا وائرس وبا کا دوسرا دور شروع ہو چکا ہے تو انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک میں تو ایسا ہو چکا ہے تاہم پاکستان میں ابھی اس کی علامات نظر نہیں آرہی ہیں۔
احتیاطی تدابیر کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ڈاکٹر سمیعہ کا کہنا تھا کہ ایس او پیز ہی کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کا واحد طریقہ ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کو پہلے کی طرح مزید سختی کرنی پڑے گی تبھی کام بنے گا ورنہ لوگ تو اب اس کو کافی ایزی لے رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں موسم سرما کی آمد ہے اور ایسے میں ہر قسم کی انفیکشنز بڑھ جاتی ہیں اس لیے آنے والے دنوں میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہو گی۔