لاہور کے حفیظ سینٹر میں لگی آگ کو چوبیس گھنٹے بعد مکمل طور پر بجھانے میں کامیابی تو حاصل ہو گئی مگر اب بھی جلی ہوئی دکانوں کے اندر سے ہلکی پھلکی چنگاریاں نمودار ہو رہی ہیں۔ ریسکیو 1122 کی چند گاڑیاں پیر کو بھی پلازہ کے باہر کھڑی رہیں کہ اگر کہیں پھر آگ سلگھے تو اسے فوری بجھایا جا سکے۔
ریسکیو 1122 کے ترجمان محمد فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پلازے کے 70 فیصد حصے کو بچا لیا گیا مگر دوسری، تیسری، چوتھی منزل اور چھت آگ کی وجہ سے جھلس گئیں۔
کیا پلازے کا جلنے والا حصہ استعمال کے قابل ہے؟
سول انجینئیر علی نعیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’پلازے کی جو منزلیں جلیں ان کا دوبارہ استعمال اس بات پر منصر ہے کہ آگ کس درجے کی تھی؟ اگر تو اسے اوپر کی منازل تک روک لیا گیا اور عمارت کے باقی حصے تک نہیں پھیلنے دیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عمارت کا وہ حصہ جو جلا ہے صرف اس کی تعمیر نو کی جائے گی۔ یہاں بھی یہ دیکھنا پڑے گا کہ آگ کتنی دیر لگی رہی؟ جلنے والا حصہ کس حد تک جلا؟ کیا اس کی صرف مرمت ہوگی یا اسے گرا کر نیا بنایا جائے گا؟‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’دوسری اہم چیز یہ ہے کہ عمارت میں آگ لگی رہی اسے بجھانے کے لیے پانی کا استعمال کیا گیا۔ پھر اس عمارت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھی پانی کا استعمال ہوا۔ ہمیں یہاں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا عمارت کے اندر پانی کے نکاس کے لیے انتظامات موجود تھے؟ جہاں سے پانی خود بخود خارج ہوتا رہا یا ریسکیو ٹیموں نے اضافی پانی کو سکرز کی مدد سے عمارے سے خارج کروایا؟ کیا جتنے حصے میں کئی گھنٹوں تک آگ بجھانے کے لیے پانی برسایا گیا اس حصے کو ڈی واٹر کیا گیا؟ اگر تو پانی کا نکاس نہیں تھا، جو شاید نہ ہو کیونکہ یہ عمارت پرانی بنی ہوئی ہے، تو اس پلازے کی جانچ پڑتال کرنے والوں کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہاں برسایا جانے والا پانی سیپ کر کے نیچے کی منزلوں تک تو نہیں پہنچ گیا۔ کیونکہ اتنے گھنٹے پانی کھڑا رہنے سے پانی عمارت کی بنیادوں تک جا سکتا ہے اور وہ مستقبل میں کسی بڑے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔‘
اس حوالے سے ریسکیو 1122 کے ترجمان محمد فاروق کا کہنا تھا: ’آگ بجھانے اور اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے جو پانی استعمال کیا جاتا ہے اس میں سے 50 سے 60 فیصد پانی بھاپ بن کر ساتھ ساتھ اڑتا جاتا ہے۔‘
دوسری جانب ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رضوان نصیر نے انڈپینڈینٹ اردو کو بتایا کہ عمارت کی انسپیکشن کا کام متعلقہ ادارے تب شروع کریں گے جب اسے ٹھنڈا کر کے وہاں سے ملبا ہٹا دیا جاتا ہے۔
عمارت کو ڈی واٹر کرنے کے متعلق ڈی جی ریسکیو 1122 رضوان نصیر نے بتایا: ’اس کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ پلازے میں نکاسی آب کے لیے اچھی چڑھائیاں بنی ہوئیں تھیں اسی لیے پانی زیادہ دیر تک وہاں کھڑا نہیں ہوا جبکہ پلازے کے نچلے فلورز خاص طور پر بیس مینٹ میں بھی پانی نہیں گیا۔ اس لیے پانی کی وجہ سے عمارت کو اتنا نقصان نہیں ہوا ہوگا۔‘
کیا حفیظ سینٹر میں آگ سے بچاؤ کے انتظامات تھے؟
حفیظ سینٹر کے دو تاجروں، محمد عمر اور عثمان بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے افسوس سے بتایا: ’حفیظ سینٹر کی عمارت 1992 میں تعمیر ہوئی۔ اس عمارت کے اندر کوئی باقائدہ ایمرجنسی ایگزٹ نہیں ہے، ہاں پلازے کی پچھلی طرف ہی کچھ گلیاں بنی ہوئی ہیں جہاں سے بھاگ کر نکلا جاسکتا ہے۔ نہ یہاں فائر الارمز اور نہ ہی سپرنکلرز موجود ہیں جو آگ لگنے کی صورت میں خود بخود آن ہو کر پانی برسانا شروع کردیں۔ کچھ آگ بجھانے والے آلات ضرور ہیں جن سے ابتدائی طور پر آگ بجھانے کی کوشش کی گئی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان تاجروں کے خیال میں چونکہ حفیظ سینٹر اب سینٹرلی ائریکنڈیشنڈ ہے اس لیے زیادہ تر آگ اے سی ڈکٹس کی وجہ سے اوپر کی جانب پھیلی اور کنٹرول سے باہر ہوگئی۔ جبکہ رات گئے تک جلی ہوئی دکانوں میں موجود بیٹریوں، اے سی کمپریسروں، سیلنڈروں میں وقفے وقفے سے دھماکے ہوتے رہے۔
عمارت میں حفاظتی اقدامات کے حوالے سے ڈی جی رضوان نصیر کا کہنا تھا: ’لوگ بلڈنگ سیفٹی کوڈ جو 2016 میں بھی نوٹیفائی ہوئے ان پر عمل درآمد نہیں کرتے۔ کم از کم بڑے پلازوں کے باہر فائیر ہائڈرینٹس لگے ہونے چاہییں۔ رسکیو آپریشن میں حصہ لینے والوں کے لیے ایسی آگ ایک خوفناک خواب سے کم نہیں کیونکہ وہ اپنی جان پر کھیل کر آگ بجھانے وہاں جاتے ہیں جہاں سے لوگ بھاگ کر اپنی جان بچانے کے لیے نکلتے ہیں۔ کیمیکل فیومز اور دھواں جتنا ہمارے اندر گیا اس سے ہم سب کے گلے متاثر ہوئے۔ میرے خیال میں جتنی اونچی عمارتیں بن رہی ہیں اتنا ہی ان کا فائر سیفٹی سسٹم کمزور ہے ۔ پرانے وقتوں میں فائر ہائڈرینٹس ہوا کرتے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ ختم ہوتے گئے۔ یہ عمارت کے مالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ چند پیسے بچانے کے لیے لوگوں کے جان و مال کو خطرے میں نہ ڈالیں۔‘
دوسری جانب واسا حکام نے بھی شکایت کی کہ حفیظ سینٹر کے باہر فائر ہائڈریٹس نہ ہونے کی وجہ سے آگ بجھانے والے ٹرکوں کو پانی لینے کے لیے کافی دور جانا پڑا۔ جبکہ اس آپریشن میں 50 ہزار گیلن سے زیادہ پانی استعمال ہوا۔
کیا ریسکیو 1122 جائے وقوعہ پر دیر سے پہنچی؟
حفیظ سینٹر میں لگی آگ کے بھڑکنے کا ذمہ دار ریسکیو 1122کو ٹہرایا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ریسکیو1122 حفیظ سینٹر بہت دیر سے پہنچی۔ جبکہ اس حوالے سے جب ہم نے ادارے کے ترجمان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ریسکیو 1122 کو اتوار کی صبح چھ بج کر 11 منٹ پر کال موصول ہوئی اور اگلے چند منٹوں میں وہ وہاں موجود تھے۔ تاہم حفیظ سینٹر کے تاجر عثمان بٹ نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آگ الصبح لگی تھی جسے بجھانے کے لیے پہلے دکاندار خود ہی کوشش کرتے رہے۔
اس سلسلے میں حفیظ سینٹر تاجران یونین کے سیکرٹری بشارت بلوچ نے بھی اعتراف کیا: ’پلازے میں ایک سو سے زیادہ آگ بجھانے کے آلات تھے جس کے ذریعے پہلے تاجر اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھانے کی کوشش کرتے رہے۔ جب آگ بجھانے والے آلات خالی ہو گئے تب ہم نے ریسکیو 1122 کو کال کی۔‘
ڈی جی ریسکیو رضوان نصیر نے بھی ریسکیو 1122 کو بروقت اطلاع نہ دیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا: ’عمارت میں آگ کافی دیر کی لگی تھی مگر ریسکیو کو اطلاع دیر سے دی گئی۔ جس وقت ہمیں کال موصول ہوئی اس وقت آگ اپنا زور پکڑ چکی تھی۔ کاش ریسکیو 1122 کو بروقت کال کی جاتی تو نقصان اتنے بڑے پیمانے پر نہ ہوتا۔‘
کیا حفیظ سینٹر کی دکانیں اور ان میں موجود مال کی انشورنس ہے؟
حفیظ سینٹر تاجران یونین کے سیکٹری بشارت بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’حفیظ سینٹر میں لگنے والی آگ سے تقریباً200 دکانیں جل کر خاک ہوئیں اور اندازاً اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ہماری یہ دکانیں یا ان میں پڑا کوئی بھی سامان انشورڈ نہیں تھا۔ اس لیے حکومت کو ہمارے نقصان کا ازالہ کرنا پڑے گا۔ ہم تخمینہ لگا رہے ہیں کہ کس کا کتنا نقصان ہوا۔ ہم ٹیکس دینے والے لوگ ہیں اور اگر اس وقت ٹیکس دینے والے مالی لحاظ سے مشکل میں ہیں تو حکومت کو ہمیں اس مشکل سے نکالنا پڑے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی پی ایس ایل اور کرونا کی وجہ سے تاجر اجڑے ہوئے تھے۔ اب کچھ کاروبار شروع ہوا تھا تو یہ آزمائش آگئی۔ ’ہم چاہتے ہیں حکومت جلد ازجلد ہنگامی بنیادوں پر پلازے کی انسپیکشن مکمل کرکےفوری طور پر اسے نارمل حالت میں بحال کرے۔‘
یہ کیسے معلوم ہو کہ تاجر اپنا جو نقصان بتائے گا وہ ٹھیک ہے؟
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیس اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’کسی بھی ملک میں نجی نوعیت کے نقصان کا ازالہ حکومت کی ذمہ داری تب تک نہیں ہوتی جب تک کہ یہ ثابت نہ ہو کہ نقصان حکومت کی وجہ سے ہوا ہے۔ جیسے اگر کوئی دہشت گردی ہوئی ہو اور اس میں کسی کی جان چلی گئی ہو۔ نجی کاروبار والے اپنے نقصان کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ انہوں نے اپنے سامان کی انشورنس کروائی ہو۔ یہی کیپٹل ازم کا اصول ہے۔ اس کے لیے انشورنس کمپنیاں بنی ہوئی ہیں۔ اور ان کے پاس طریقہ کار ہوتا ہے اس بات کو یقینی بنانے کا کہ جو جانی و مالی نقصان ہوا اس کی انشورنس ہوئی تھی اور نقصان کتنا اور کیوں ہوا۔‘
ڈاکٹر قیس اسلم کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں بھی کچھ پلازوں میں آگ لگی اور اس کے پیچھے کہانی یہ نکلی کہ پلازہ مالکان نے وہ آگ خود لگوائی تاکہ انشورنس کی رقم لی جاسکے۔ اور یہ کہانیاں ڈھکے چھپے انداز میں سامنے آئیں۔ ’اب اس کیس میں اگر حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ انہوں نے نقصان کا ازالہ کرنا ہے تو یہ فیصلہ نہیں ہوسکے گا کہ ہر دکان میں کتنا مال تھا۔ اس میں ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ اگر تو یہ دکاندار ٹیکس دیتے ہیں تو یہ ٹیکس فائلر بھی ہوں گے۔ انہوں نے اپنی سرمایہ کاری بھی فائل کی ہو گی۔ اور اس سے اس دکان کا معلوم ہو سکتا ہے کہ اندازاً کتنے فیصد ان کا ٹیکس تھا اور اس حساب سے ان کی سرمایہ کاری ہوگی۔ لیکن اگر کوئی فائلر نہیں تھا تو تب یہ نقصان اس دکاندار کی اپنی ذمہ داری ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ان لوگوں کی مدد کرنا ہوگی جو ٹیکس دیتے ہیں۔‘
ام کا مزید کہنا تھا: ’ٹیکس فائلر کے انکم ٹیکس کے گوشواروں سے معلوم ہوگا کہ ان کی اپنے کاروبار میں سرمایہ کاری کتنی تھی۔ زیادہ تر بڑے تاجر براہ راست درآمد یا برآمد کرتے ہیں جبکہ چھوٹے کاروباری افراد مڈل مین سے لیتے ہوں گے۔ کہنے کو ایک ڈاکومینٹیڈ اکانومی میں سب چیزیں لکھی پڑہی ہوں گی مگر کیا ہماری اکانومی ڈاکومینٹڈ ہے؟ اب اگر یہ تاجر ٹیکس دیتے ہیں تو ڈاکومینٹڈ ہیں نہیں دیتے تو ان کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ تاجر نے کتنا مال درآمد کیا یا برآمد کیا اس کا یوں معلوم ہوگا کہ اگر وہ ٹیکس دیتا ہے تو اس نے کس چیز پر کتنی کسٹم ڈیوٹی ادا کی؟ یہ معلومات مدد کرے گی یہ جاننے میں کہ تاجر اپنا جونقصان بتا رہا ہےوہ ٹھیک ہے یا نہیں۔‘