یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
ہمیں ایک گہری جمہوریت، مضبوط ادارے اور طاقتور متحد عوام چاہیے۔ صرف اسی وقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان ایک کامیاب ریاست ہے۔
مگر موجودہ جمہوریہ اس لیے ناکام ہے کہ اس میں کمزور جمہوریت، غیرفعال ادارے اور محکوم عوام ہیں۔ اس جمہوریہ کے کمزور ہونے کی کئی وجوہات جو میں آپ کو وقتا فوقتا بتاتا رہا ہوں۔ آج ایک اور وجہ آپ کو بتاتا ہوں وہ یہ ہے کہ موجودہ جمہوریہ غیرمنطقی ہے اور ایسا نظام کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہ بات آپ کو سمجھاتا ہوں۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شریک پارٹیاں یہ کہتی ہیں کہ سلیکٹڈ اور انجینیئرنگ سے بنی وفاقی حکومت نامنظور۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سندھ کی پی ڈی ایم کی اپنی صوبائی حکومت بھی سلیکٹڈ اور انجینیئرنگ کا شاہکار ہے۔ آپ سب کو یاد ہے اس حکومت کو حاصل کرنے کے لیے زرداری صاحب نے کتنی محنت کی ہے۔ کم از کم اپنے اصول کو ثابت کرنے کے لیے پی ڈی ایم کو پہلے اپنی اتحادی پارٹی سے شکوہ کرنا چاہیے کے اس تضاد کو دور کریں تاکہ عوام کا ان پر یقین بڑھے۔
پی ڈی ایم کی اہم ترین پارٹی مسلم لیگ ن کے اہم ترین رہنما خواجہ آصف نے مان لیا ہے کہ انہیں الیکشن ہارنے کا اندیشہ تھا اور انہیں یقین دھانی کے لیے آرمی چیف سے رابطہ کرنا پڑا۔ خواجہ صاحب پوری دنیا کو بتاتے ہیں کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے۔ اب اسی شرم اور حیا کا خیال کرتے ہوئے پی ڈی ایم کو چاہیے ان سے درخواست کریں کہ پارلیمان سے استعفی دیں تاکہ ان کی بات میں وزن زیادہ پیدا ہو۔
پی ڈی ایم کی تمام پارٹیاں اس بات پر بضد ہیں کہ وہ عوام کے بھلے کے لیے نکلے ہیں۔ لیکن اب تک ہر جلسہ میں زور اس بات پر ہے کہ ’ہمیں کیوں نکالا۔‘ میں اس بات پر قائل ہوں پچھلے الیکشن میں انجینرنگ ہوئی مگر اس کا فائدہ سب نے تھوڑا تھوڑا اٹھایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہی وجہ ہے کہ ان سب نے مل کر ہماری تجویز کردہ پارلیمانی کمیٹی کو ناکام کیا جس کے ذمہ پچھلے الیکشن کی تحقیق تھیں۔ ہونا یہ تو چاہیے تھا کہ اگر پی ڈی ایم کو عوام کا درد تھا تو اپنے پہلے جلسے میں میثاق پاکستان پیش کرتے اور اس کے بعد ملک گیر جلسوں سے اس کے لیے عوام کی حمایت حاصل کرتے۔ مگر ان تمام 11 سیاسی پارٹیوں کی دلچسپی صرف اور صرف اقتدار میں ہے۔ عوام کے لیے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے۔ مجھے انتہائی افسوس ہے اور یہی وہ خامیاں ہیں جس کی وجہ سے عوام کو ان پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔
ادھر حکومت خود ہر روز عوام کو یہ باور کراتی ہے کہ ان کا وجود عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ کہیں اور سے ہوا۔ ہر روز یہ ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں آئین، قانون اور ریاستی اداروں کی عزت کرنا نہیں آتی۔ ایسی حکومت سے لوگوں کا اعتبار ختم ہو چکا ہے اور انہیں اب ان سے جان چھڑانے کا راستہ چاہیے۔ لیکن حزب اختلاف بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
موجودہ جمہوریہ نہیں چل سکتی۔ جمہوریہ صرف آئین کا نام نہیں بلکہ یہ آئین اور اس کے ماتحت اداروں سے مل کر بنتی ہے۔ ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے حل ہماری قومی سیاسی مذاکرات کی میز ہے۔ وہیں آپس میں گلے شکوے بھی ہوں گے اور مسائل کا حل بھی تلاش کیا جائے گا۔
سیاسی پارٹیوں کو قبائلی رویہ چھوڑ کر قوم کی تعمیر میں آگے آنا چاہیے۔ اداروں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ سیاست نہ ان کے بس کی بات ہے اور نہ انہیں آئینی اختیار ہے کے اس میں حصہ لیں۔ انہیں اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے اور اصلاحات کے پروگرام میں سیاست دانوں کی ریاستی ادارے کے طور پر مدد کرنی چاہیے ۔ کسی قسم کِا براہ راست مارشل لا مزید تباہی کا باعث بنے گا۔ اگر مذاکرات نہیں ہوں گے تو پھر لڑائی ہوگی اور اس دفعہ عوام ان سب کا حشر کرے گی۔ اللہ اس وقت سے ہمیں بچائے۔
نوٹ: اس مضمون میں دی جانے والی رائے مصنف کی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔