گذشتہ ہفتے بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر متھرا میں ایک مقامی عدالت نے اس عرضداشت کو سماعت کے لیے منظور کر لیا جس میں شہر میں واقع کرشن جنم بھومی سے متصل شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
عرضی دہندگان کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد 17ویں صدی عیسوی میں مغل حکمران اورنگزیب کے دور میں بھگوان کرشن کی جائے پیدائش پر موجود مندر کے ایک حصے کو منہدم کر کے بنائی گئی تھی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ گذشتہ ماہ بھی ایک مقامی عدالت میں اس مسجد کو ہٹانے کی عرضداشت داخل کی گئی تھی، جسے بعد میں عدالت نے خارج کر دیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ 1968 میں ہندو اور مسلم فریقین کے درمیان اس زمین کے تعلق سے متعلق سمجھوتہ ہو چکا ہے جس میں یہ طے پایا تھا کہ جتنی جگہ پر مسجد موجود ہے، وہ قائم رہے گی۔ اس کے باوجود گذشتہ تین دہائیوں میں ہندوتوادی طاقتیں اس مسجد کو وہاں سے ہٹانے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں اور پچھلے ایک سال میں اس مطالبے میں مزید شدت آئی ہے۔
بابری مسجد کے انہدام میں اہم کردار ادا کرنے والے وشوو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بی جے پی کے سینیئر رہنما ونئے کٹیار نے انہدام کے معاملے میں بری ہونے کے بعد کہا کہ ان کا اگلا نشانہ کاشی اور متھرا ہیں۔
واضح رہے کہ چھ دسمبر 1992 کو ہزاروں ہندوتوادی کار سیوکوں نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ مسجد کے انہدام کے بعد ہندوتوادی تنظیموں اور ان کے نمائندوں کی طرف سے ’ایودھیا تو صرف جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے‘ کا نعرہ بلند کیا جاتا رہا ہے۔
بی جے پی کے ایک دوسرے سینیئر رہنما اور رکن پارلیمان ساکشی مہاراج، جو کہ متھرا سے بھی رکن پارلیمان رہ چکے ہیں، کا دعویٰ ہے کہ ملک میں ایسی تین ہزار مساجد ہیں جن کی تعمیر مغلوں نے مندروں کو منہدم کرکے کی تھی۔ ان کے دعوے کے مطابق اس میں دہلی کی جامع مسجد بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً تاج محل کے ’تیجو محالے‘ نامی ایک شیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا رام جنم بھومی اور بابری مسجد تنازع میں مندر کے حق میں فیصلے، رام مندر کی تعمیر کے لیے بھومی پوجن اور حال ہی میں بابری مسجد انہدام کے معاملے میں تمام ملزمان کے بری ہو جانے کی وجہ سے ہو رہا ہے، تاہم بعض مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ ابھی اس تحریک کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی ہے، جیسا کہ ایودھیا کے معاملے میں دیکھا گیا تھا اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ ان معاملات میں بھی ہندوتوادی طاقتوں کو ایودھیا جیسی کامیابی ملے۔
ہندوتوا سیاست پر متعدد کتابوں کے مصنف دھیرین جھا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہندوتوادی تنطیموں کی طرف سے اس طرح کا مطالبہ نہ تو نیا ہے اور نہ ہی یہ کوئی تعجب کی بات ہے۔ میں ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ اس طرح کے مطالبات دراصل ان تنظیموں کی کور آئیڈیولوجی کا حصہ ہے، جسے وہ چھوڑ نہیں سکتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’اصل بات یہ ہے کہ عدلیہ اس معاملے میں کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اگر عدلیہ کا رویہ وہی رہتا ہے جیسا کہ رام جنم بھومی اور بابری مسجد تنازعے کے حوالے سے رہا ہے تو عین ممکن ہے کہ اس کا بھی وہی نتیجہ نکلے جو کہ اُس کیس میں ہوا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق رام جنم بھومی اور بابری مسجد معاملے میں عدلیہ کا رویہ منصفانہ نہیں رہا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’چاہے زمین کا معاملہ ہو یا پھر بابری مسجد کے انہدام کا معاملہ دونوں میں عدلیہ نے شواہد اور ثبوت کو درکنار کرکے سنگھ پریوار (آر ایس ایس) اور ان کی متعلقہ تنظیموں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا کام کیا ہے۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ مہینے لکھنو کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے اپنے فیصلہ میں بابری مسجد انہدام کے تمام 32 ملزموں کو بری کر دیا تھا، جس میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کے چوٹی کے رہنما شامل تھے۔ کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملزمان کے خلاف کوئی پختہ ثبوت نہیں ملے، بلکہ ملزمان کی جانب سے مشتعل ہجوم کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔
تاہم بابری مسجد انہدام کی تفتیش کرنے والے انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس (اب ریٹائرڈ) لبراہن کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنی جانچ میں پایا کہ یہ ایک سازش تھی۔ مجھے اب بھی اس پر یقین ہے۔ میرے سامنے پیش کیے گئے تمام شواہد سے یہ واضح تھا کہ بابری مسجد انہدام کا منصوبہ باریکی سے بنایا گیا تھا۔‘
متھرا کی ہی طرح کاشی (بنارس) میں بھی وشوناتھ مندر اور گیان واپی مسجد پر تنازع جاری ہے۔ اس سلسلے میں ہندو فریقوں کی طرف سے ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں بھی عرضی گزاروں کا دعویٰ ہے کہ یہ کاشی کی گیان واپی مسجد اورنگزیب کے دور حکومت میں ایک شیو مندر کو منہدم کرکے بنائی گئی تھی۔
تاہم مسلم فریق کا کہنا ہے کہ وہاں کوئی مندر نہیں تھا۔ اس تنازعے پر بنارس کی مقامی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔
اس پورے معاملے میں لکھنؤ میں مقیم سینیئر تجزیہ کار رام دت تر پاٹھی کی رائے دھیرین جھا سے مختلف ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ متھرا اور کاشی کے کیسوں کا نتیجہ بھی ایودھیا جیسا ہی ہو گا۔‘
ان کے مطابق ایودھیا کا معاملہ مختلف تھا۔ پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991، یعنی عبادت گاہوں کے متعلق ایک خصوصی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ایودھیا تنازع کو استثنیٰ حیثیت حاصل تھی کیونکہ اس قانون کے مطابق بھارت میں 15اگست 1947 کو جو مذہبی مقام جس شکل میں تھا وہ اسی حیثیت میں رہے گا۔ اس میں کاشی اور متھرا کی مسجدیں بھی شامل ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ نہ تو بے جے پی اور نہ ہی آر ایس ایس ان معاملات میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہے، اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ کاشی متھرا کے لیے رام جنم بھومی جیسی عوامی رائے ہموار ہو پائے گی۔
وہ اس لیے بھی پر امید ہیں کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ ملک نے بہت خون خرابہ دیکھ لیا اور ان کو نہیں لگتا کہ عوام اب اس کے لیے تیار ہیں۔
یاد رہے کہ بابری مسجد انہدام کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے، جن میں ہزاروں لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔ سب سے بڑا فساد ممبئی میں ہوا تھا جس میں حکومت کی رپورٹ کے مطابق 900 لوگ ہلاک اور دو ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ متاثرین میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق مسلمانوں سے تھا، جنہیں اب بھی انصاف نہیں مل سکا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہمیں عدالت کے فیصلے کا انتطار کرنا چاہیے۔ ابھی کسی حتمی فیصلہ پر پہنچنا جلد بازی ہو گی۔‘
تاہم دھیرین جھا کا خیال ہے کہ ’حالیہ دنوں میں ایسے کیسوں میں عدلیہ کا جو رویہ رہا ہے اس کی بنیاد پر امید ہونا خام خیالی ہوگی، البتہ اگر عدالت حق کے بنیاد پر فیصلہ دے تو پھر نتیجہ مختلف ہو سکتا ہے۔‘
متھرا کی مقامی عدالت میں کرشن جنم بھومی سے متصل شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹانے کی عرضی پر اگلی شنوائی نومبر کی 18 تاریخ کو ہونے والی ہے۔ عرضی دہندگان نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ پلیسز آف ورشپ ایکٹ کا اطلاق متھرا کیس پر نہں ہوتا ہے۔
ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ عدالت کیا رخ اختیار کرتی ہے اور اسی سے پتہ چلے گا کہ رام جنم بھومی کا معاملہ استثنیٰ تھا یا پھر واقعی ’ایودھیا صرف جھانکی تھی، کاشی متھرا باقی ہے۔‘