یہ کہانی ایک پراسرار کیریکٹر کی ہے۔
ایسا شخص جو عجائب گھروں میں حلیہ تبدیل کر کے جاتا تھا۔ لوگوں سے بچتا تھا، کیمروں سے چھپتا تھا، گھنٹوں ایک ہی جگہ میں ٹہلتا رہتا لیکن کوئی فن پارہ، کوئی تصویر نہیں دیکھتا تھا، وہ صرف خالی جگہیں ڈھونڈتا تھا۔ اسے کچھ بھی نہیں چرانا ہوتا تھا لیکن ہر بار کسی آرٹ گیلری یا میوزیم جاتے ہوئے اس کا ناک نقشہ تبدیل ہوتا تھا۔
2010 میں اسے ٹائم میگزین نے دنیا کے سو بااثر افراد میں شامل کیا۔ اس لسٹ میں بارک اوباما اور سٹیو جابز جیسے نام بھی تھے لیکن باوجود اس پہچان کے، دنیا میں کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ اسے جانتا ہے۔
ٹائم والوں کو بھی اس نے اپنی تصویر چہرہ چھپا کے بھیجی۔ دنیا بھر میں ٹائم کا ایڈیشن جہاں جہاں گیا، سب نے دنیا کے سو بااثر ترین افراد میں ایک چہرہ ایسا دیکھا جس کے منہ پر خاکی لفافہ چڑھا ہوا تھا۔
دنیا بھر سے اس کا رابطہ صرف ای میل کے ذریعے ہے، چاہے وہ کام کے سلسلے میں ہو یا کچھ بھی اور۔
ابھی میوزیم واپس چلتے ہیں۔ سوال یہ ہے اسے جب چرانا کچھ نہیں ہوتا تھا تو وہ چہرہ تبدیل کر کے عجائب گھروں میں کیوں گھستا تھا۔
اکتوبر 2003 میں پہرے داروں کے سامنے سے ایک آدمی گزرا جس کے لمبی داڑھی تھی، سر پہ ہیٹ تھا اور کالے رنگ کا اوور کوٹ اس نے اچھی طرح لپیٹ رکھا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بیگ تھا، لیکن چونکہ وہ اندر جا رہا تھا اس لیے کسی نے توجہ نہیں دی۔ میوزیمز کے گارڈ ہمیشہ اس فکر میں ہوتے ہیں کہ اندر والے باہر کیا لا رہے ہیں۔ تو وہ اندر گیا اور تیسری منزل پہ سات نمبر کمرے کے اندر آ گیا۔ یہ جگہ اس نے کافی بار یہاں چکر لگانے کے بعد منتخب کی تھی۔ یہ دو گیلریوں کو ملانے کا رستہ تھا اور عموما پہرے دار یہاں بیٹھنے کے بجائے اسے ایک گیلری سے دوسری گیلری جانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس کے دائیں طرف اٹھارہویں صدی کی ایک تصویر تھی اور درمیان میں تھوڑی خالی جگہ کے بعد وہ راستہ جو آٹھ نمبر گیلری کو جاتا تھا۔
اس نے جھک کر بیگ میں سے ایک تصویر نکالی، اسے دیوار پہ گوند سے چپکایا، عنوان کے لیے ایک علیحدہ تختی لگائی اور سکون سے باہر آ گیا۔ وہ عجائب گھروں سے تصویریں نہیں بلکہ ان کی جگہ چراتا تھا ۔ وہ بس اپنی بنائی ہوئی تصویریں وہاں لگا دیتا تھا۔
تصویر اس جگہ صرف تین گھنٹے چپکی رہی۔ گوند سوکھتے ہی اکھڑ گئی اور نیچے گرنے پہ گارڈز کو پتہ لگا کہ یہاں کوئی ہاتھ ہو گیا ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ اپنی پینٹنگ وہاں کامیابی سے لگا کے جا چکا تھا اور ویڈیو کیمروں نے اسے یہ سب کرتے ہوئے ریکارڈ کر لیا تھا۔
یہ واردات اس نے برطانیہ کے ایسے میوزیم میں کی تھی جو قومی سطح پہ انٹرنیشنل ماڈرن آرٹ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ٹیٹ TATE کے نام سے قائم ہوئے اس میوزیم میں تصویروں کا لگنا دنیا بھر میں کسی بھی فنکار کے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔
تصویر کی عنوان والی تختی پہ اس کا نام لکھا تھا۔ واردات کی خبر عام ہونے پہ اس نے سارے میڈیا کو ای میلز بھیجیں اور بتا دیا کہ یہ کام اس نے کیا تھا۔ اس نے ایک انٹرویو میں کہا کہ لوگ پوچھتے ہیں کیا جو کام میں کرتا ہوں وہ آرٹ میں آتا بھی ہے؟ اب میں نے انہیں دکھا دیا کہ بھئی وہ تو ٹیٹ میوزیم میں لگا ہوا ہے، جو کرنا ہے کر لو۔
اس آرٹسٹ کا نام بینکسی ہے اور وہ شہر بھر کی دیواروں پہ گریفیٹی بناتا تھا۔ یہ جو اپنے یہاں آپ کو شہر کی دیواروں پہ بڑی بڑی تصویریں نظر آتی ہیں جو مختلف کالجوں، یونیورسٹیوں کے بچے بنا رہے ہوتے ہیں، ان کا رواج بینکسی کے بعد ہی شروع ہوا۔
کسی بھی ملک میں عام طور پہ دیواروں پہ تصویر بنانا خلاف قانون ہے، جیسے اکثر لکھا ہوتا ہے کہ اس دیوار پہ وال چاکنگ کرنا منع ہے۔ تو لندن میں بھی یہی کیس تھا۔ بینکسی کی شناخت آج تک کوئی نہیں کر سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو وہ گریفیٹی بناتا تھا دوسرے اس کی تصویروں میں شدید احتجاج کا رنگ ہوتا تھا، یا کوئی ایسا پیغام ہوتا تھا جس پہ حکومت کو اعتراض ہو۔ تو گرفتاری کے ڈر سے وہ آج تک منظر عام پہ آیا بھی نہیں اور مشہور بھی ہو گیا۔
یہ میوزیم والی واردات اس نے پانچ چھ ملکوں میں کی، خوب نیوز کوریج ملی، صورتحال یہ ہو گئی کہ اس وقت بینکسی دو کروڑ ڈالر سالانہ کمائی کر رہا ہے۔ جو انتظامیہ پہلے دیواروں سے اس کی تصویریں مٹاتی پھرتی تھی وہ اب باؤلی ہو رہی ہوتی ہے کہ کسی دیوار پہ بینکسی تصویر بنائے اور وہ پوری دیوار کو شیشہ لگا کے محفوظ کر لے۔ دیواروں کا پورا ٹکڑا اکھاڑ کے نیلام کر دیا جاتا ہے جہاں وہ تصویر بنا دے۔
اتنی لمبی کہانی کیوں سنائی؟ جاگ جاؤ بھئی۔ جو جہاں بھی ہے اور جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ جب تک روٹین پہ لگا ہوا ہے تب تک کدو کچھ نہیں ہونے والا۔ دماغ لڑائیں، سوچیں کہ ایسا کیا ہو جو پہلے نہیں ہوا، قسمت اب تک ساتھ نہیں ہے تو کوشش کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ آپ لوگوں کے پاس شدید ایکٹیو سوشل میڈیا ہے، بینکسی نے جب کام شروع کیا تھا اس کے پاس صرف روائتی میڈیا تھا۔ ہر چیز بکتی ہے بشمول آپ کے، بیچنے کا طریقہ انوکھا نکالیں بس!ایک اور چیز بھی سوچنے پہ مجبور کرتی ہے۔ آپ کتنے پاکستانی مصوروں کو جانتے ہیں؟ چلیے نام کس کس کا سنا ہے؟ چغتائی، صادقین اور گل جی؟ کیا وجہ کہ بس یہ تینوں سب کو یاد ہیں، باقیوں کو جو یاد رکھتے ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک جیسی ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام کبھی بھی آرٹ گیلریوں یا میوزیم تک نہیں آتے۔ اگر آپ مصور ہیں تو آپ کو اپنا کام خود لوگوں تک پہنچانا پڑے گا اور کام بھی ایسا کہ جس سے وہ جڑا ہوا محسوس کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چغتائی صاحب ایکسٹرا کلیور مصور تھے۔ ان سے پہلے بھی اور ان کے بعد بھی ویسا کام بہت ہوا، انہوں نے جو رگ پکڑی وہ قوم کی نئی نئی مذہب پسندی تھی۔ انڈو اسلامک آرٹ کے نام سے خوب چلا کام، پھر اقبال اور غالب کے شعروں پہ تصویریں بنائیں، یہ بھی ایسا موضوع تھا جو سیدھے عوام کی دلچسپی کا تھا۔ صادقین کے پاس بھی میڈیا کے لیے بہت کچھ تھا۔ دلچسپ افسانوی شخصیت، ملنگ ہونے کا تاثر، ویسٹرن تجرید میں خطاطی مکس، سرکاری اداروں کے لیے اکثر مفت بنائے گئے دیوقامت میورل (بہت بڑی پینٹنگ)، تو یہ سب کچھ ان کے آرٹ میں شامل تھا۔ گل جی نے بھی بڑے دھیان سے مارکیٹ بنائی۔ پہلے لاجورد سے ریگن، بھٹو، آغا خان، بلوچستان کے شاہ اور کئی دوسرے سربراہان کی تصویریں بنائیں، پھر سنگل سٹروک قسم کی خطاطی پہ بھی زور رکھا، ان کی تصویریں بناتے ہوئے بھی ویڈیوز موجود ہیں۔ انہیں دیکھیں، سوچیں کہ ان کا پی آر ٹول کیا تھا؟
یہی سب کچھ ادب، مصوری، فوٹوگرافی، شاعری، سبھی میں چلتا ہے۔ یا تو پی آر اچھی ہو یا آپ کے پاس چونکا دینے والا کچھ ہو۔ دونوں چیزیں نہیں ہیں تو کوئی ایک پاسا مضبوط کریں۔ گھوڑا گھاس تک خود ضرور جاتا ہے، پیاسا کنویں کے پاس بھی جاتا ہو گا لیکن یہ دونوں کبھی مصور، ادیب یا شاعر کے پاس چل کے نہیں جاتے۔ بھوک پیاس جاندار کی ضرورت ہے، فنون لطیفہ اس کے بعد کی عیاشی ہیں۔ یا تو لوگوں کے پاس آ جائیں، کچھ نیا انہیں دیں، یا پھر اپنا شوق انجوائے کریں اور شہرت کی خواہش قسمت پہ چھوڑ دیں۔