’پاکستان میں جب لوگوں کو کچھ سمجھ نہیں آتا تو وہ کہتے ہیں یہ مغربی ایجنڈا ہے۔ یہ لبرل سازش ہے۔ تو مجھے بھی لوگ ایسے ہی سمجھتے ہیں، بلکہ میں تو ایک عوامی آدمی ہوں۔ میں پانچ بولیاں بولتا ہوں۔ ایبٹ آباد سے میرا تعلق ہے اور ’برگر‘ لوگوں کے میں بھی خلاف ہوں۔‘
یہ کہنا ہے 29 سالہ ڈاکٹر محمد معیز کا جو ایک پبلک ہیلتھ پروفیشنل اور ری سرچر ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ روپ بدل کر ڈریگ کامیڈی بھی کرتے ہیں۔
پاکستان میں ڈاکٹر بننے کے بعد امریکہ سے گلوبل ہیلتھ پالیسی میں ماسٹرز کرنے والے معیز بتاتے ہیں کہ انہیں بچپن سے ہی تھیٹر اور پرفارمنگ کا بہت شوق تھا۔ وہ لڑکوں کے سکول میں پڑھے تو سکول کے ڈارمے میں لڑکی کا کردار ادا کرنے میں کبھی جھجک محسوس نہیں کی۔
وہ کہتے ہیں: ’میری فیملی کو میری کبھی سمجھ ہی نہیں آئی۔ ان کو بچپن سے تھا کہ بڑا لائق بچہ ہے۔ فرسٹ آتا ہے۔ مجھے گولڈ میڈل بھی ملا امریکہ میں۔ میں نے میڈیکل کالج کے اینٹری ٹیسٹ میں ٹاپ کیا تھا۔ ان کو تھا کہ کاغذ پہ ساری چیزیں پرفیکٹ ہیں لیکن بچہ ہمارا وکھرا سا ہے۔‘
ایکٹنگ کے شوق میں معیز نے ایک شمائلہ بھٹی نامی کرادر بھی ایجاد کیا جو سوشل میڈیا پر بہت ہٹ ہوا اور انہیں بہت پذیرائی ملی۔ وہ امریکہ میں ہی زیر تعلیم تھے جب انہیں اپنے ڈریگ کردار کا خیال آیا۔ ’ایک دن میں بس میں سفر کر رہا تھا تو جیسے خدا کی طرف سے میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ میں جب بھی پاکستان میں ڈریگ کامیڈی کروں تو اس کا نام ***** چٹنی رکھوں گا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ڈریگ کامیڈی میں آپ کردار سازی کرتے ہیں اور اس کردار کی ایک کہانی لکھتے ہیں، پھر اسے دس گنا بڑھا چڑھا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
معیز کے بقول: ’پاکستان میں ڈریگ کامیڈی ایک عرصے سے ہے۔ جیسے مرحوم معین اختر صاحب نے روزی کا کردار نبھایا تھا۔ عمر شریف صاحب نے بھی کردار کیے ہیں۔ اس کے بعد بیگم نوازش علی۔‘
ان کے مطابق وہ ایسی کامیڈی کرنا چاہتے تھے جسے سن کر لوگ محضوظ بھی ہو جائیں لیکن سوچنے پر مجبور بھی ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پاکستانی میڈیا میں جس طرح کی کامیڈی ہوتی ہے وہ میری کامیڈی سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ اس میں غربت کا، عورتوں کا، لوگوں کی تکلیفوں کا ایسے مزاق اڑیا جاتا ہے جیسے وہ کچھ معنی نہیں رکھتے۔ بس ایک ریلے میں بہا دیں۔ ایسی کامیڈی لوگوں کی سوچنے کی صلاحیت کم کر دیتی ہے۔ میں اپنی کامیڈی میں لوگوں کو ہنسانا چاہتا ہوں لیکن انہیں سوچنے پر مجبور بھی کرتا ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ڈریگ کامیڈی میں حقیقت بیان کی جاتی ہے۔ جتنی گندی ہوتی ہے اتنی ہی اس میں سیاسی طاقت ہوتی ہے۔ اور ہر فن کی طرح، اسے پسند کرنے والے بھی بہت ہیں اور ناپسند کرنے والے بھی۔ لیکن یہی تو آرٹ کا حسن ہے۔ ہر کسی کو سب کچھ پسند نہیں آئے گا اور اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر معیز اب تک پاکستان بھر میں کچھ بیس شوز کر چکے ہیں اور ان کا حالیہ شو ’لنڈے کے لبرل‘ راولپنڈی میں بحریہ ٹاؤن کے کیفے سول میں ہوا جو سولڈ آوٹ تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے ہر شو کے بعد انہیں پاکستانی عوام سے زیادہ پیار ہو جاتا ہے۔
’میری آڈیئنس میں پہلے صرف نوجوان نسل ہوتی تھی لیکن اب ہر عمر کے لوگ آتے ہیں۔ پروفیشنلز آتے ہیں۔ ملٹری کے لوگ آتے ہیں۔ عورتیں، لڑکیاں، ٹرانس۔ سب آتے ہیں۔‘
ملک میں سماجی بدلاؤ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ پاکستان میں بدلاؤ آ رہا ہے۔ ہماری نسل ضیا الحق کے زمانے کے فرسودہ ماحول سے تھک گئی ہے۔ ہم ہر زبان بولتے ہیں اور اب ہماری بس ہو گئی ہے۔ ہم اسی ملک میں رہیں گے اور اپنی مرضی سے رہیں گے۔ ہم پاکستان کے ثقافتی تنوع کو سیلیبریٹ کرتے ہیں۔باغ میں ہر طرح کا پھول کھلتا ہے تو ہم کیوں سب کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں؟ پاکستان میں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں اور یہ ہماری ثقافت کی خوبصورتی ہے۔‘