ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبہ بلوچستان کے صوبائی صدر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے ہفتے کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
ان کے استعفے کے بعد سوال کھڑے ہو رہے ہیں کہ کیا حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے فوج مخالف بیانیے کے بظاہر ردعمل کے طور پر ن لیگ میں اختلافی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں؟
پارٹی میں ذرائع کے مطابق عبدالقادر بلوچ نے نواز شریف کے بیانیے سے اختلاف کے باعث بلوچستان کی صدارت سے علیحدگی اختیار کی۔ ن لیگ کے ایک اہم رہنما نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ‘بلوچ صاحب کچھ ناخوش لگتے ہیں اس سے جو نواز لیگ کی قیادت پی ڈی ایم کے جلسوں میں کہتی رہی ہے۔‘
انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ پارٹی کی سینیئر قیادت اس صورتحال کی توقع کر رہی تھی اور بلوچ صاحب کے مسئلے کو دیکھا جا رہا ہے۔ بظاہرعبدالقادر بلوچ پی ڈی ایم کے 25اکتوبر کو کوئٹہ میں ہونے والے جلسے میں بلوچستان سے ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ ثنااللہ زہری کو نہ بلانے کی وجہ سے مستعفی ہوئے ہیں۔
تاہم پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے ہفتے کو لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ثنااللہ زہری کو سردار اختر مینگل کے ساتھ تنازعے کے باعث کوئٹہ کے جلسے میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ ’عبدالقادر بلوچ صاحب استعفیٰ دینا چاہتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔ ہم بلوچستان کی صورت حال کو دیکھ رہے ہیں۔‘ انڈپینڈنٹ اردو نے استعفے اور پارٹی معاملات پر ردعمل جاننے کے لیے قادر بلوچ سے رابطے کی کوشش کی لیکن ان کا ٹیلی فون مسلسل بند رہا۔
سردار اختر جان مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی۔مینگل) پی ڈی ایم کا حصہ ہے اور اختر مینگل نے کوئٹہ کے جلسے سے خطاب بھی کیا تھا۔ ثنااللہ زہری بلوچستان میں آباد زہری اور جھالاوان قبیلوں کے سردار ہیں جبکہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کا تعلق زہریوں کے ذیلی شاخ چنال سے ہے۔
گذشتہ کئی ماہ سے علاج کی غرض سے لندن میں مقیم پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اعظم نواز شریف پی ڈی ایم کے جلسوں میں پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کے خلاف نام لے کر تنقید کرتے رہے ہیں جبکہ ان کی صاحب زادی مریم نواز بھی اپنی تقاریر اور بیانات میں فوج مخالف بیانیے کو اپنائے نظر آتی ہیں۔
قومی اسمبلی کے سابق سپیکر ایاز محمد صادق نے چند روز قبل قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بھارتی پائلٹ ابھینندن کی واپسی کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور عسکری اداروں پر تنقید کی تھی۔
مسلم لیگ ن ٹوٹ رہی ہے؟
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ہفتے کو پریس کانفرنس میں عبدالقادر بلوچ کے استعفی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’امید ہے مسلم لیگ ن میں موجود عقل مند عناصر صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے نواز شریف کے بیانیے پر احتجاج کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے ن لیگ کی پاکستان میں موجود قیادت پر طنز کرتے ہوئے انہیں ایم کیو ایم پاکستان کی طرز پر مسلم لیگ پاکستان بنانے کا مشورہ دیا۔ سیاسی پیشنگوئیوں کے لیے جانے جانے والے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے بھی بار ہا ن لیگ میں سے شین (شہباز شریف) لیگ کے نکلنے کی شنید دیتے رہے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے ہفتے کو ننکانہ صاحب میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ن لیگی رہنماؤں کے ریاست مخالف بیانات کے باعث ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی پر غور کیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے کئی رہنما نواز شریف اور مریم نواز کے بیانات اور کیپٹن (ر) صفدر کے قائد اعظم کے مزار میں مبینہ نعرے بازی کے باعث مسلم لیگ نواز پر پابندی کا عندیہ بھی دیتے رہے ہیں۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی نواز شریف کے مبینہ فوج مخالف بیانیے کے باعث پارٹی میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں اور عبدالقادر بلوچ کا استعفیٰ اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے؟
لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (لمز) میں سیاسیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے خیال میں اب یہ سلسلہ چل پڑا ہے اور مزید لوگ بھی پارٹی چھوڑیں گے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’نواز شریف اور مریم نواز نے فوج پر جو چڑھائی کر رکھی ہے پاکستان میں اس بیانیے کو پذیرائی نہیں ملنے لگی کیونکہ دانش وروں کے ایک مخصوص طبقے کے علاوہ پاکستان میں عوامی سطح پر فوج کو اس کے کارناموں کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ عبدالقادر بلوچ کا استعفی پارٹی کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ثابت ہو گا اور مستقبل قریب میں مزید لوگ بھی اسی راہ کا انتخاب کریں گے۔ سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ایم ضیاالدین نے کہا کہ عبدالقادر بلوچ کا استعفی اہم بات ہے اور مزید استعفے بھی آ سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے پارٹی میں متوقع ٹوٹ پھوٹ کے مفروضے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا بیانیہ صرف ایک شخصیت کا نہیں بلکہ پوری مسلم لیگ نواز کا ہے۔ ’یہ کیسے ممکن ہے کہ نواز شریف پی ڈی ایم کے جلسوں میں جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ اپنی جماعت کے اہم رہنماؤں سے مشورے کے بغیر کہ رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عبدالقادر بلوچ مسلم لیگ نواز میں اہم پوزیشن پر ہیں اور یقیناً ان کے علم میں ہو گا کہ جماعت کا رہنما سیاسی طور پر کیا لائن لینےجا رہا ہے۔ ایم ضیاالدین نے مزید کہا کہ عبدالقادر بلوچ کے فوجی پس منظر کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے، وہ فوج میں رہ چکے ہیں اور یقینا وہاں ان کا اثر رسوخ ہو گا۔
رسول بخش رئیس نے بھی کہا کہ فوجی کسی بھی سیاسی جماعت میں چلے جائیں ان کی بینادی وفاداریاں ہمیشہ فوج کے ساتھ رہتی ہیں۔
مسلم لیگ نواز کے رہنما نے کہا کہ عبدالقادر بلوچ کا استعفی کسی صورت پارٹی میں کسی بڑے انتشار کی طرف اشارہ نہیں۔ ’انہوں نے صرف صوبائی صدارت چھوڑی ہے نہ کہ بنیادی رکنیت۔ وہ اب بھی مسلم لیگ نواز کا حصہ ہیں۔‘
ایم ضیاالدین کے خیال میں ریاستی اداروں میں کوئی ایک گروہ ایسا موجود ہے جس نے نواز شریف کو یہ بیانیہ اختیار کرنے کو کہا۔ ’میں نہیں مان سکتا کہ نواز شریف سب کو بیوقوف بنا کر لندن چلے گئے بلکہ انہیں اسی گروہ نے نکالا ہے اور اب انہیں اس بیانیے کو اختیار کرنے کا کہا ہے۔‘
سینیئر صحافی کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب میں سے ریاستی اداروں کے خلاف آواز اٹھنا بہت اہم ہے کیونکہ ایسا کبھی پہلے پاکستان میں نہیں ہوا۔