جیمز بانڈ فلموں کے ہیرو شان کونری فاؤنٹین برج، ایڈنبرا میں واقع عمارت کے فلیٹ میں پلے بڑھے۔ عمارت میں گنجائش سے زیادہ لوگ رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے 13 برس کی عمر میں سکول چھوڑ کر، اینٹیں بنانے، سیمنٹ مکس کرنے، لوہا موڑنے، لاری ڈرائیور اور تابوت کو پالش کرنے کے کام کیے۔
انہیں چھوٹی آنت کے زخم کی وجہ سے غیرموزوں قرار دے کر بحریہ کی ملازمت سے برخواست کر دیا گیا۔ جب آپ سمجھتے ہیں کہ وہ جنگ کے بعد کے دور کے برطانوی سینیما کے نہ صرف سب سے بڑے سٹار بلکہ پردے کے بہترین اداکار بن گئے تو یہ پس منظر ذہن میں رکھنے کے لائق ہے۔
ملازمت پیشہ طبقے سے تعلق رکھنے والے سکاٹ لینڈ کے باشندے کو ناول نگار آیئن فلیمنگ کے خوش اطوار ہیرو جیمز بانڈ کے طور پر کاسٹ کرنے کے امکانات زیادہ نہیں تھے لیکن کونری نے اس کردار میں جان ڈال دی۔ ہلکا پھلکا طنزیہ مزاح، اذیت پسندی اور پراسراریت پیدا کی جس نے ابتدائی دور کی بانڈ فلموں کو ناکامی سے بچایا۔
بعد کے برسوں میں اذیت پسندی مسئلہ بن گئی۔ کونری کی پہلی بیوی ڈایئن سیلنتو نے ان پر بدسلوکی کا الزام لگایا۔ انہوں یہ کہہ کر اضطراب پیدا کر دیا کہ ’کسی خاتون کو تھپڑ مارنا بدترین عمل نہیں ہے۔‘ اور اس کے بعد ایک انٹرویو کے دوران وہ اپنے اس جملے پر قائم رہے۔ بالآخر انہوں نے اپنی سوچ تبدیل کر لی اور 2006 میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا نہیں مانتے کہ ’خواتین کے ساتھ کسی حد تک بدسلوکی کا جواز بنتا ہے۔‘ لیکن اس وقت تک نقصان ہو چکا تھا۔
آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو بات نامناسب اور عجیب ہونے سے بڑھ کر معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے فلم سٹارز میں سے ایک نے اس قسم کی خواتین دشمنی پر مبنی زبان استعمال کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اداکار کی یادگار کامیابیوں پر بات کرتے ہوئے کسی قدر احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔
برطانوی مصنف پی جی ووڈہاؤس کی اس تحریر کو شہرت ملی ’ایک رنجیدہ سکاٹ شہری اور دھوپ کی کرن کے درمیان فرق بتا پانا کبھی مشکل نہیں رہا۔‘
آپ کو کچھ شک ہو گا کہ جب انہوں نے یہ تبصرہ کیا تو وہ کونری کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ کونری اپنی نجی اور پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے کینے اور پسندیدہ جھگڑوں میں الجھے دکھائی دیتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ چاہے وہ بونڈ فلموں کے پروڈیوسر البرٹ ’کبی‘ بروکولی ہوں یا سکاٹ لینڈ کا میڈیا یا ہالی ووڈ کا نظام، انہوں نے ایسا محسوس کیا کہ ہر کوئی انہیں دھوکہ دینے پر تلا ہوا تھا ٹھیک اسی طرح جیسے فلم ’گولڈفنگر‘ میں گالف کورس پر اورک گولڈ فنگر نے انہیں دھوکہ دیا۔ بلاشبہ کونری اس دھوکے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوشیار تھے۔
جس چیز نے کونری کو 1950 کی دہائی کے برطانوی فلم سٹارز سے ممتاز کیا وہ ان کی جسمانی ساخت تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ ان اونچے طبقے کے لہجے میں بات کرنے والے ان اکڑفوں والے ’لڑکوں‘ میں سے ایک نہیں تھے جیسا کہ کینیتھ مور یا ڈرک بورگارڈ جو ٹویڈ کی جیکٹیں پہن کر ’ڈاکٹر ان دا ہاؤس‘ سیریز کی فلموں میں نظر آئے۔ وہ لائف گارڈ اور تن ساز تھے جنہوں نے تین سال تک رقص کرنا بھی سیکھا۔
ایک مرتبہ سکاٹ لینڈ کے فٹ بالر میٹ بزبی نے انہیں مبینہ طور پر مانچسٹر یونائیٹڈ کے لیے سائن کرنے کی کوشش کی۔ وہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ کھیلے اور اپنے جسم کے معاملے میں انہیں آسانی رہی۔
کونری کو کامیابی حاصل کرنے میں جو وقت لگا اس سے انہیں اس میں مدد ملی۔ اس وقت تک ان کی عمر 30 برس سے زیادہ تھی جب بانڈ کے طور پر کاسٹ کیا گیا۔ وہ سوچ اور خودبینی کی خصوصیت کے اعتبار سے مخصوص لب و لہجے کے مالک امریکی اداکار مارلن برانڈو، جیمز ڈین اور منٹگمری کلفٹ کی طرح تھے ان کی طرح دماغی الجھنوں کا شکار نہیں تھے۔
اس کے بعد آواز کی باری آتی ہے۔ وہ بات کرنے کا گہرا اور امتیازی انداز جس کی نقل اتارنے کا لطف ایون میک گریگر اور جونی لی ملر نے فلم ’ٹرین سپوٹنگ‘ (1996) میں لیا۔ ’بہت واضح، مش منی پینی۔‘
کرداروں کی شہریت سے قطع نظر کونری نے جو بھی کردار کیا چاہے وہ سوویت آبدوز کمانڈرز ہوں، عرب باغی رہنما یا برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی فائیو کے جاسوس، ان کی آواز میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ مثال کے طور پر برائن ڈی پالما کی فلم ’دا ان ٹچ ایبلز‘ (1987) میں آئرش امریکی پولیس افسر کے کردار میں ان کا مونولاگ سنیں جس میں وہ ’شکاگو وے‘ کے بارے میں بتاتے ہیں۔
انہیں اس کردار پر آسکر ایوارڈ ملا تھا۔ ’وہ چاقو نکالتا ہے، تم گن نکالتے ہو۔ وہ تمہارے آدمیوں سے ایک کو ہسپتال پہنچا دیتا ہے تم اس کے ایک آدمی کو مردہ خانے پہنچا دیتے ہو۔‘
جو آپ کو کونری کے تمام کرداروں میں دکھائی دیتا ہے وہ جذبہ اور عزم ہے۔ حتی کہ بانڈ کا کردار کرتے ہوئے انہوں نے گیجیٹس، مارٹینی اور وقتی رومانس کو حقیقی کام کے آڑے نہیں آنے دیا یعنی ’سپیکٹر‘ کا خاتمہ اور بلوفیلڈ نامی ولن کو کیفر کردار تک پہنچانا۔
اگر کونری میں تضاد نہ ہوتا تو وہ کچھ نہ ہوتے۔ وہ سکاٹ لینڈ کے پرجوش قوم پرست تھے جنہوں نے ٹیکس سے بچنے کے لیے بہاماس کے جزائر میں زندگی گزاری۔ وہ کفایت شعار، کنجوس ادارکار تھے جنہوں نے فلاحی کاموں کے لیے بڑی بڑی رقوم دیں۔ وہ ایڈنبرا کے ملازمت پیشہ طبقے سے تعلق رکھنے والے اداکار تھے جنہوں نہ صرف اس بانڈ کا کردار ادا کیا جس نے سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کی بلکہ وہ کردار بھی ادا کیا جس میں اس کا تعلق برطانوی فوج کے اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والے افسروں سے ہے۔
اپنے کریئر میں آگے چل کر کونری بظاہر فلمیں بنانے سے زیادہ گولف کورس میں وقت گزانے میں دلچسپی رکھنے والے دکھائی دیے۔ مگر جب بھی انہوں نے کوئی کردار لے لیا تو پھر اس میں مکمل ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
لازمی طور پر بونڈ نے کونری کے باقی تمام کام پر پردہ ڈال دیا۔ جیسا کہ گذشتہ اختتام ہفتہ پر انہیں خراج پیش کیا جا رہا ہے، آپ دیکھیں گے کہ زیادہ تر کالموں میں ڈاکٹر نو، ڈائمنڈز آر فارایور ایٹ ایل کا زکر ہو گا نہ کہ 1960 میں کیے جانے والا دوسرا کام یا بونڈ سیریز چھوڑنے کے بعد جن فلموں میں انہوں نے کام کیا۔
جس کسی کو بھی ان کے کام کی رینج پر شک ہو وہ سڈنی لومے کے ساتھ ان کی باغی سپاہی کے طور پر ’دا ہل‘ (1965) دیکھ لے یا ’دا آفینس‘ (1973) میں کام میں ڈوبے پولیس اہلکار کے طور پر بچوں سے جنسی زیادتی کی تحقیقات کرتے ہوئے۔
جسمانی ساخت کے ساتھ کونری جانتے تھے کہ سرکشی، اخلاقی تشویش اور اندرونی تکلیف کو کیسے دکھانا ہے۔ شاید بونڈ کرتے ہوئے وہ ردعمل کے طور پر مسلسل بلیو کالر کردار بھی کرتے رہے، مثال کے طور پر مارٹن رٹ کی The Molly Maguires (1970) میں شدت پسند کان کن اور ٹریڈ یونینسٹ۔ 1967 میں جس سال انہوں بونڈ سریز کی فلم ’یو آنلی لیو ٹوائس‘ میں کام کیا تھا انہوں نے دی بولر اینڈ دی بننیٹ (1967) کی ہدایتکاری بھی کی جو کہ ٹریڈ یونین اور کلائڈ میں شپ یارڈ میں کام کرنے کے طریقہ کار پر بننے والی بلیک اینڈ وائٹ ڈاکیومینٹری تھی۔
سکرین پر کونری ایک ڈارک اور غمگین شخصیت تھے مگر وہ خود کو ہمیشہ سمجیدہ نہیں لیتے تھے۔ انہوں نے انڈیانا جونز اینڈ دی لاسٹ کروسیڈ (1989) میں ہیریسن فورڈ کے کتابی والد کے طور پر اچھا مزاح کیا۔
وہ ٹیری گیلیئم کی کامک فینٹسی ’ٹائم بینڈٹس‘ (1981) میں کنگ ایگمیمومن کا کردار کرتے ہوئے زیادہ شاندار نہیں تھے۔ ان کے کریئر کے آغاز میں آپ انہیں ڈزنی فلم ڈربی او گل اینڈ لٹل پیپل میں (1959) میں بھی دیکھیں گے، جسے رابرٹ سٹیونسن آف میری پاپنز فیم ڈائریکٹ کیا۔
رابن اینڈ میریئن (1976) میں اوڈری ہیپبرن کے میریئن کے مخالف بزرگ رابن ہٹ کے طور پر انہوں نے گریس اور چارم کا مظاہرہ کیا۔
ڈائریکٹر جان بوورمین جنہوں نے کونری کے ساتھ سائنس فکشن ڈرامہ ’زاردوز‘ (1974) میں کام کیا برطانوی معروف کلچر پر کونری کے اثر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں کونری اس لیے ہمیں پسند ہیں کیونکہ وہ برطانیہ میں جنگ کے بعد کی تباہی سے بہترین خصوصیات کا تمثل کرتے ہیں۔ تعلیمی ریفارم، بی بی سی کی موناپولی کا ختم ہونا اور ٹیلنٹ کو بڑھن کا موقع دینا۔‘
بوورمین کے الفاظ اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ برطانوی سینیما کی تاریخ میں ثابت قدم اور اہم حصہ ہیں۔
وہ باہر کے تھے مگر اختیار اتنا تھا کہ ہر کسی نے انہیں تسلیم کیا۔ انہوں نے کلاس کا فرق ختم کیا۔ ان کا انداز سنجیدہ مگر کرشماتی تھا، اس امتزاج نے بونڈ فرنچائز اور ان کے اپنے کریئر دونوں ہی کو معروف بنا دیا۔
© The Independent