امریکہ میں آج ری پبلکن پارٹی کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سابق نائب صدر جو بائیڈن کے درمیان امریکی صدارت کے لیے سخت مقابلہ متوقع ہے۔ نئے آنے والے صدر کی پاکستان کے لیے کیا اہمیت ہوگی، اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے امریکہ میں مقیم معروف پاکستانی اینکر وجاہت خان سے بات کی جن کا کہنا تھا کہ گذشتہ 20 سالوں میں امریکہ کی پاکستان کی جانب خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔
وجاہت کا کہنا تھا: ’پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ جب بھی ایک ری پبلکن صدر آتا ہے تو وہ پاکستان کے ساتھ تعاون کرتا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ تاریخی طور پر شاید اس سوچ میں دم ہو، مگر گذشتہ 20 سالوں کو آپ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ چاہے ڈیموکریٹ آئے یا ری پبلکن۔ بھارت کی طرف واشنگٹن کا جھکاؤ ہو چکا ہے اور اس کے تحت پرو دہلی صورت حال ہو چکی ہے۔‘
مکمل انٹرویو دیکھیے:
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں صرف ایک شخص خارجہ پالیسی نہیں بناتا بلکہ وہ پینٹاگون، وازرت خارجہ اور تھنک ٹینکس وغیرہ میں بنتی ہے اور بھر سینیٹ اور کانگریس سے منظور ہوتی ہے۔
’ایک پوری سٹیبلشمنٹ ہے جہاں پاکستان کے بارے میں بیانیہ بنتا ہے۔ یہ بیانیہ کوئی ایک بندہ نہیں بناتا بلکہ سینکڑوں لوگ اور درجنوں ادارے بناتے ہیں اور پچھلی دو دہائیوں سے یہ ادارے اور لوگ دہلی کی حمایت میں بیٹھے ہیں۔‘
بقول وجاہت: ’عمران خان ہوں، جنرل قمر جاوید باجوہ ہوں یا جنرل فیض ہوں۔ آج جو بھی راولپنڈی یا اسلام آباد سے اس الیکشن کو غور سے دیکھ رہا ہے، اسے نظر آرہا ہے کہ امریکہ پاکستان سے چاہتا کیا ہے۔‘
وجاہت کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان سے جو چاہتا تھا وہ پاکستان نے کچھ حد تک اسے دیا ہے۔ صدر ٹرمپ پاکستان سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کروانا چاہتے تھے اور افغانستان میں موجود دس سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو نکلوانا چاہتے تھے، مگر یہ نہیں ہوا۔ ’پاکستان نے کچھ حد تک امریکہ کی مدد کی مگر مکمل طور پر امریکی انخلا نہیں ہوسکا تو ان کا اپنے ووٹروں سے وعدہ ادھورا رہ گیا، یہ انہیں ضرور یاد رہے گا۔‘
وجاہت کا ماننا ہے کہ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ جو بائیڈن بھارت کی جانب امریکی جھکاؤ کو جاری رکھیں گے، خاص طور پر اس لیے کیونکہ ان کی پارٹی میں بھارتی لابی بہت طاقت ور ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’ٹرمپ اور مودی کی دوستی ایک طرف اور ڈیموکریٹک پارٹی میں بھارتی امریکیوں کی لابی ایک طرف، اقتتدار میں جو بھی آئے، واشنگٹن میں پاکستانی کی حمایت کا امکان زیادہ نہیں ہوگا۔‘
امریکی انتخابات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت قومی پولز میں صدر ٹرمپ، جو بائیڈن سے پیچھے تو ہیں مگر بیٹل گراؤنڈ ریاستوں میں اتنا بھی پیچھے نہیں۔
’صدر ٹرمپ کے حریف ڈیموکریٹس کو ایک فائدہ ہے کہ ارلی ووٹنگ (قبل از وقت ووٹنگ جو لوگ گھر سے ڈاک کے ذریعے کر رہے ہیں) سے اب تک دس کروڑ تک ووٹ پڑ چکے ہیں اور ان میں تقریباً 60 سے 70 فیصد ڈیموکریٹس ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اگر دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ پہلے سے طے ہو چکا ہے کہ جو بائیڈن جیت جائیں گے لیکن جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ ری پبلکن ووٹرر اس بات کے لیے مشہور ہیں کہ ڈیموکریٹس کے مقابلے میں الیکشن کے دن ان کا ٹرن آؤٹ زیادہ رہتا ہے۔‘