اسلام آباد کے نواحی علاقے میں ایک دکان پر بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ لوگ دکاندار کو باری باری پیسے دیتے ہیں جو کاؤنٹر پر پڑے درجن بھر موبائل فونز میں سے ایک میں اندراج کرتے اور چند لمحات بعد رقم دینے والے سے مخاطب ہوتے ہیں: 'آپ کے پیسے چلے گئے۔'
موبائل فون پر نظریں جمائے دکان سے باہر آتے محمد رحمت جو قریبی زیر تعمیر عمارت میں دیہاڑی دار مزدور ہیں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'بیوی کا میسج تھا کہ پیسے مل گئے ہیں۔ اب بہت آسان ہو گیا ہے، دیہاڑی ملتی ہے اور ایک گھنٹے کے اندر پیسے بہاولپور بھیج دیتا ہوں۔'
اسی عمارت میں کام کرنے والے ترکھان افضل خان خیبر پختونخوا کے علاقے صوابی سے تعلق رکھتے ہیں، جنہوں نے بتایا کہ موبائل فونز کے ذریعے پیسوں کی ترسیل نے ان جیسے دیہاڑی پر کام کرنے والوں کی زندگی آسان بنا دی ہے۔ 'پہلے ہم لوگ ایک مہینے بعد چھٹی پر جاتے تھے تو گھر والوں کو پیسے دیتے تھے لیکن اب تو روز کے روز بھیج سکتے ہیں۔ لگتا ہے جیسے اپنے ہی شہر میں مزدوری کر رہے ہیں۔'
رحمت اور افضل جیسے گھروں سے دور کام کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیوں کو رقوم کی ترسیل کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال نے آسان بنادیا ہے، جسے فنانشل ٹیکنالوجی یا فِن ٹیک (Fintech) کہا جاتا ہے۔
فن ٹیک کیا ہے؟
پاکستان میں فن ٹیک کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم کے مطابق: 'فن ٹیک ایک وسیع میدان ہے جس سے مراد جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے مالیاتی خدمات کی فراہمی اور مصنوعات ڈیزائن کرنا ہے۔ یہ رقوم کی منتقلی کے علاوہ کاروباری اداروں کے لیے قرضے، سرمایہ کاری کے انتظام، رقم جمع کرنے اور ادائیگیوں وغیرہ کی خدمات بھی فراہم کرتی ہے۔'
یہاں جدید ٹیکنالوجی سے مراد دوسری مشینوں کے علاوہ موبائل فونز اور کمپیوٹرز بھی ہیں اور انٹرنیٹ کی سہولت فن ٹیک کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ فن ٹیک ایک بہت وسیع مالیاتی سرگرمی ہے، جس سے مراد صرف چھوٹی رقوم کی منتقلی نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے ادارے اور بینک بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ فن ٹیک کمپنیاں اداروں کے لیے مالیاتی ڈیزائن اور پراجیکٹس بھی تیار کرتی ہیں۔
فن ٹیک کے زمرے میں اے ٹی ایم کارڈز، کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز، آن لائن بینکنگ اور کمرشل بینکوں کی جانب سے فراہم کردہ دوسری کئی سہولتیں شامل ہیں جن کے باعث صارفین بینک کی کسی برانچ جائے بغیر اور اکثر اوقات گھر بیٹھے پیسوں کا لین دین کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد کی رہائشی مہوش عباس کہتی ہیں: 'کافی عرصے سے بینک جانا ہی نہیں ہوا، تنخواہ اے ٹی ایم کے ذریعے نکال لیتے ہیں اور یوٹیلیٹی بلز آن لائن بینکنگ کی مدد سے جمع ہو جاتے ہیں۔'
گذشتہ 10 سالوں کے دوران پاکستان کی ایک بڑی آبادی حکومتی مالیاتی نظام کا حصہ بنی ہے، جس سے ان کو کئی سہولیات حاصل ہوئیں جس کی ایک وجہ ملک میں موبائل فونز اور انٹرنیٹ سروس کی دستیابی اور بہتری بتائی جاتی ہے۔
مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی ایک کمپنی کے ڈائریکٹر ریحان اختر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 93 فیصد آبادی مالیاتی نظام کا حصہ بن سکتی ہے جس سے 2025 تک ملکی جی ڈی پی میں فن ٹیک کمپنیوں کی مدد سے 36 ارب امریکی ڈالر سالانہ شامل ہو سکیں گے۔
فن ٹیک ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق اس شعبے کی ترقی سے ملک میں 40 لاکھ نئی نوکریاں پیدا ہو سکتی ہیں جبکہ 236 ارب ڈالرز کے نئے ڈیپازٹس مل سکتے ہیں۔
گذشتہ سال سے شروع ہونے والی کرونا (کورونا) وائرس کی وبا اور بعد میں لاک ڈاؤنز کے سبب ملک میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کا رجحان بڑھا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس سال مئی میں روزانہ بینکوں سے رقوم کی منتقلی تقریباً دو لاکھ سے بڑھ کر سات لاکھ روپے روزانہ ہو گئی ہے۔
بغیر بینک کے لین دین
آپ نے 'ایزی پیسہ' اور 'جاز کیش' جیسی ایپلی کیشنز کو ضرور استعمال کیا ہوگا۔ یہ ایسے مالیاتی ادارے ہیں جو صارفین کو بینک کی کسی برانچ جائے یا اکاؤنٹ کھلوائے بغیر رقوم کی ایک سے دوسری جگہ منتقلی اور مختلف ادائیگیوں کی خدمات فراہم کرتی ہیں۔ ایسی مالیاتی لین دین کو برانچ لیس (Branchless) بینکنگ کہا جاتا ہے، جو فن ٹیک کی ہی ایک قسم ہے۔
اس حوالے سے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان عابد قمر کا کہنا ہے کہ ایزی پیسہ اور جاز کیش جیسی دوسری کئی خدمات برانچ لیس بینکنگ کے زمرے میں آتی ہیں اور یہی وہ سہولتیں ہیں، جنہیں فن ٹیک کی بدولت عام شہریوں کے لیے نعمت قرار دیا جاتا ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے گذشتہ پانچ سالوں کے دوران کئی ایسی کمپنیوں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دی ہے جو چھوٹے پیمانے پر فن ٹیک کی خدمات فراہم کر رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عابد قمر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ابھی یہ شعبہ ترقی کے مراحل میں ہے اور سٹیٹ بینک اس کے لیے چھوٹی ادائیگیوں (مائیکرو پیمنٹس) کی پالیسی بنا رہا ہے۔
سٹیٹ بینک گذشتہ سال الیکٹرانک آلات کی مدد سے رقوم کی منتقلی کا کاروبار کرنے والے اداروں کے لیے قواعد و ضوابط جاری کر چکا ہے جبکہ ڈیجیٹل انیشی ایٹیو پاکستان کو زیادہ مضبوط بنانے کی غرض سے حکومت نے نومبر 2019 میں نیشنل پیمنٹس سسٹم سٹریٹجی بھی متعارف کروائی ہے، جس کے تحت حکومتی نگرانی میں الیکٹرانک ادائیگیوں کی طرف منتقلی کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد وشمار کے مطابق سال رواں میں اپریل سے جون کے دوران برانچ لیس بینکنگ کے تحت رقوم کی ساڑھے 39 کروڑ سے زیادہ لین دین ہوئی، جن میں رقم کا مجموعی حجم تقریباً 40 کروڑ روپے بنتا ہے۔ اسلام آباد میں کام کرنے والے بہاولپور کے دیہاڑی دار مزدور محمد رحمت نے کہا کہ انہیں گھر پیسے بھیجنے پر اچھا خاصا کمیشن ادا کرنا پڑتا ہے۔
تاہم فن ٹیک کمپنی کے ایک سینئیر اہلکار نے بتایا کہ تمام کمپنیاں سٹیٹ بینک کے جاری کردہ قواعد کے مطابق کام کرتی ہیں اور کوئی بھی کمپنی زیادہ کمیشن چارج نہیں کرتی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے مزید بتایا کہ ایجنٹ کل رقم کا محض چند ایک فیصد کاٹتا ہے، جس کے بغیر سروس کا فراہم کیا جانا ممکن نہیں ہو گا۔