دبئی میں مقیم بھارتی شہری تومیچان پوٹھوپرمبل تھامس اپنی نظر اور روزگار کھو چکے ہیں۔ انہیں دو بار سٹروک کا اٹیک ہو چکا ہے اور گرنے سے ان کو لگنے والے زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے۔ وہ قرض میں ڈوب چکے ہیں، ان کے خلاف کرائے کے حوالے سے مقدمہ چل رہا ہے اور وہ چھ ماہ جیل میں بھی رہ چکے ہیں۔
’گلف نیوز‘ کے مطابق بہت ساری مشکلات کا مقابلہ کرنے والے 63 سالہ تومیچان پوٹھوپرمبل تھامس بھارتی ریاست کیرالہ میں اپنے گھر واپس جانا چاہتے ہیں، ایسے میں دبئی میں ایک پاکستانی کرین آپریٹر 36 سالہ محمد اسد ان کے لیے امید کی کرن ثابت ہوئے ہیں۔
کوئی رشتہ ناتا نہ ہونے کے باوجود اسد تقریباً 18 ماہ سے تھامس کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔
ایک انٹرویو میں تھامس نے ’گلف نیوز‘ کو بتایا: ’اسد نہانے اور کپڑے پہننے میں میری مدد کرتے ہیں۔ وہ مجھے ٹوائلٹ لے جاتے ہیں۔ وہ مجھے کھانا کھلاتے ہیں اور ایک بچے کی طرح مجھے بستر تک لے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ اسد کے مقروض ہیں جو انہیں پناہ دے رہے ہیں اور اپنے والد کی طرح ان کا خیال رکھ رہے ہیں۔
تھامس نے بتایا: ’وہ رات کو کام پر جاتے ہیں۔ میں صبح سویرے ان کا کام سے واپس آنے کا انتظار کرتا ہوں کیونکہ میں ان کی مدد کے بغیر واش روم تک نہیں جا پاتا۔ مجھے ذیابیطس ہے اور مجھے بیڈ پین کو کئی بار استعمال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔‘
تھامس نے بتایا کہ اسد ہی اسے ان کے لیے صاف کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسد نے تھامس کو کرامہ میں واقع اپنے تنگ فلیٹ میں پناہ دی ہوئی ہے۔ انہوں نے تھامس کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’میں انہیں چاچا کہتا ہوں لیکن وہ میرے لیے باپ کی طرح ہیں۔ میں نے اپنے والد کو 2016 میں کھو دیا تھا۔ میرے والد ایک مددگار انسان تھے۔ انہوں نے ہمیں ہرممکن انداز میں دوسروں کی مدد کرنے کا درس دیا تھا۔‘
الیکٹریکل انجینیئرنگ کے ڈپلوما ہولڈر تھامس نے بتایا کہ وہ آٹھ سال قبل سعودی عرب میں تقریباً تین دہائیوں کی زندگی گزارنے کے بعد دبئی منتقل ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایک نجی کمپنی میں تقریباً چار سال تک کام کرنے کے بعد انہوں نے دبئی میں کئی چھوٹے موٹے کاروبار کیے۔
54 سالی کی عمر میں وہ کیرالہ واپس چلے گئے لیکن بعد میں دبئی منتقل ہوگئے۔
تھامس نے بتایا کہ وہ پہلے کمپیوٹر میکینک کے طور پر ملازمت کر رہے تھے لیکن انہیں صرف ایک ماہ کی تنخواہ ادا کی گئی تھی۔
’چونکہ مجھے صرف ایک ماہ کی تنخواہ ملی تو میں نے اپنے آجر کے خلاف مقدمہ درج کیا اور عدالت نے حکم دیا کہ وہ مجھے رقم ادا کرے اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ مہیا کرے۔ تب آجر نے مجھ سے معذرت کی اور مجھے ایک کمپنی میں شراکت کی پیش کش کی۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعد میں ان کا کاروبار ٹھپ ہو گیا، جس کے بعد وہ دو ماہ تک دکان کا کرایہ ادا کرنے میں ناکام رہے۔
تھامس نے بتایا: ’میں ہر مہینے 17500 درہم کا قرض دار ہوتا رہا، لیکن مجھے چھوٹ نہیں ملی اور انہوں نے مجھے دکان سے بے دخل کردیا اور دو لاکھ درہم مالیت کے سامان پر قبضہ کر لیا۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے بعد انہیں سٹروک ہوا۔ ’کچھ عرصے بعد مجھے سٹروک کا دوسرا حملہ ہوا اور میرا بایاں حصہ مفلوج ہو گیا۔‘
اس کے بعد حالات بد سے بدتر ہوتے گئے اور ایک صبح تھامس کی آنکھوں کی بینائی بھی چلی گئی۔ ’مجھے ان دنوں یوٹیوب ویڈیوز دیکھنے کی عادت تھی۔ ایک صبح میں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔‘
اگرچہ ان کے بچے وقتاً فوقتاً تھامس کو کچھ رقم بھیجتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اسد کی بے مثال خدمت ہی کی وجہ سے وہ اب تک زندہ ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’لیکن میں زیادہ دیر تک ان پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا۔ میں صرف اپنے معاملات کو یہاں حل کرنا چاہتا ہوں اور گھر واپس جا کر کیرالہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔‘
کمیونٹی رضاکاروں نے ’گلف نیوز‘ کو بتایا کہ انہوں نے دبئی میں بھارتی قونصل خانے اور دیگر کمیونٹی ممبران کے ساتھ رابطہ کیا ہے تاکہ تھامس کو اپنے قانونی اور مالی معاملات طے کرنے کے بعد واپس گھر بھیجا جا سکے اور یہ بھی یقینی بنایا جا سکے کہ ان کا مناسب طبی علاج ہو۔