یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے میں دنیا میں ہونے والے کسی بھی الیکشن کا مشاہدہ کرتا ہوں تاکہ اس سے کچھ سبق حاصل کیا جا سکے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ امریکہ جیسے اہم ملک کے انتخابات سے لاتعلق رہا جائے۔
2020 کا الیکشن کئی لحاظ سے تاریخی ہے۔ ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد امریکی کی تاریخی میں سب سے بڑی ہے۔ جو بائیڈن الیکشن جیت کر تاریخ کے ضعیف ترین صدر بن گئے اور کاملہ ہیرس پہلی افریقن امریکن اور خاتون نائب صدر۔ صدر بائیڈن تاریخ میں تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ ووٹ لینے والے صدر بھی ہیں۔
الیکشن سے چند دن پہلے چند صحافیوں سے بات چیت کے دوران میں نے یہ تجزیہ کیا کہ کرونا امریکی الیکشن کا سب سے اہم عوامی مسئلہ ہے اور صدر ٹرمپ کی اس معاملے میں خراب کارکردگی شاید ان کی ناکامی کا سبب بنے۔ ایک اور اہم مشاہدہ یہ ہے کہ امریکی ووٹروں کے درمیان ایک طرح کا معاہدہ ہے کہ ایک ہی پارٹی کو تمام سیاسی طاقت نہیں دینی۔
بہت سے تجزیہ نگار یہ سمجھ رہے تھے کے صدارت کے علاوہ امریکی کانگریس میں بھی ڈیموکریٹ پارٹی بڑی کامیابی حاصل کرے گی۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔
میرا خیال تھا کہ جو بائیڈن بہت بڑی اکثریت سے الیکشن جیت جائیں گے اور صدر ٹرمپ کو لوگ مسترد کر دیں گے۔ پہلی بات صحیح نکلی مگر صدر ٹرمپ کمزور امیدوار نہیں تھے۔
سب سے زیادہ حیرت مجھے اس بات پر ہوئی کہ امریکی سفید فام مردوں میں ٹرمپ کے ووٹ کم ہوئے جب کہ سفید فام عورتوں، افریقی امریکن اور ہسپانوی امریکنوں میں ان کے ووٹ کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ صدر بائیڈن کی جیت میں اہم کردار ریاست مشگن، وسکانسن اور اریزونا نے ادا کیا جو روایتی طور پر ریپبلکن پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں۔
سینٹ میں ریپبلکن پارٹی کی اکثریت برقرار نظر آ رہی ہے جبکہ ہاؤس میں ڈیموکریٹ کی اکثریت تو ہے مگر اس میں کمی آتی نظر آ رہی ہے۔ یعنی صدر ڈیموکریٹ ہوگا مگر سینٹ میں ریپبلکن اکثریت ہو گی جس سے دونوں پارٹیوں میں طاقت کا توازن برقرار رہے گا اور انہیں مل کر کام کرنا پڑے گا۔ یہی امریکی عوام کی خواہش بھی ہے۔
بائیڈن کی جیت سے عالمی منظرنامہ میں بھی نمایاں تبدیلیاں نظر آئیں گی۔ یورپ اور امریکہ کے تعلقات میں عام طور پر جبکہ امریکہ اور جرمنی کے تعلقات میں پچھلے چار سالوں میں تناؤ کی کیفیت رہی۔ اب ان تعلقات میں بہتری کی امید ہے مگر امریکہ کا یورپ پر دباؤ برقرار رہے گا کے وہ اپنے دفاع کا بوجھ زیادہ سے زیادہ خود اٹھائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ اور روس کے درمیان بھی تعلقات میں بہتری کی امید ہے اس لیے کہ امریکہ یہ نہیں چاہتا کہ روس اور چین ایک دوسرے کے قریب رہیں۔ صدر اوبامہ کے دور میں ایران سے کیا ہوا جوہری معاہدہ ایک دفعہ پھر زیرے بحث آنے کی توقع ہے اور اس سلسلے میں یورپ، امریکہ اور ایران کے درمیان نئے مذاکرات کی میز لگ سکتی ہے۔
سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں سرد مہری کا اندیشہ ہے۔ اس لیے کے ڈیموکریٹ جمال خاشقجی اور یمن کے معاملے میں محمد بن سلمان کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے۔ چین اور امریکہ کے تعلقات میں جو تناؤ ہے اس کے بڑھنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ امریکہ چین پر یہ زور دے گا کہ تجارتی منڈی اور سرمایہ کاری تک رسائی کے لیے ہانک کانگ میں جمہوری روایات برقرار رکھے، سنکیانگ کے مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو یقینی بنائے اور تائیوان کے خلاف جنگی دباؤ سے گریز کرے۔ بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں مزید بہتری اور گہرائی آئے گی۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بھی نمایاں تبدیلیاں ہوں گی۔ ڈیموکریٹ ہمیشہ جمہوری حکومتوں کے حامی رہے اور فوج سے ان کے تعلقات کچھ اتنے اچھے نہیں رہے۔ امریکہ پاکستان پر یہ دباؤ بھی ڈالے گا کے بھارت سے اپنے تعلقات بہتر کریں، دہشت گردی روکنے کے خلاف مزید اقدامات کریں اور چین کی کمیونسٹ حکومت سے اپنی رغبت کم کریں۔
اس بات پر بھی دباؤ ہوگا کے کشمیر میں بھارت کی پوزیشن کو تسلیم کریں۔ ایف اے ٹی ایف اور آئی آیم ایف کے ذریعہ بھی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ افغانستان سے انخلا کی رفتار میں بھی سستی آنے کا اندیشہ ہے اور ریپبلکن حکومت نے افغان طالبان سے جو معاہدہ کیا اس پر نظرثانی بھی ہو سکتی ہے۔ اس خطے سے مکمل طور پر نکلنے کی بجائے امریکہ یہاں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہے گا۔
امریکی الیکشن سے ایک بات واضع ہے کہ ان کا جمہوری نظام صدر ٹرمپ کی وجہ سے کمزور تو ضرور ہوا ہے مگر اس میں اتنی طاقت ہے کہ جھٹکوں کو سہہ سکے۔
پاکستان میں نظام اور نظام میں حصہ لینے والی جماعتیں دونوں ہی کمزور اور صلاحیت سے محروم ہیں۔ ہمارے پاس اب یہ موقع ہے کہ اپنے نظام کو درست کریں ورنہ امریکہ اور چین کے درمیان کشمکش میں ہم متحد رہ نہیں پائیں گے۔