میرا ایک ہندو دوست ہے، جسے میں استاد کا درجہ دیتا ہوں۔ دو بھائی ہیں، دونوں کے ہی ناموں کا پہلا حصہ اسلامی ہے۔ پہلی بار اس سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ اسے دوچار نعتیں بھی یاد ہیں۔
ایک موقعے پر وہ جیب سے کوئی چیز نکالنے لگا تو ساتھ تسبیح نکل آئی۔ میں نے وجہ پوچھی، بولا، ’میں سبحان اللہ اور الحمدللہ کی صبح شام تسبیح پڑھتا ہوں۔‘
یہ بتاتے ہوئے اس نے جیب سے اوراد و وظائف پر مشتمل ایک پاکٹ سائز کتابچہ نکالا۔ کتابچے کو چوم کر بولا، ’اللہ کا شکر ہے میں تو یہ بھی روزانہ پڑھتا ہوں۔ تم نے غور نہیں کیا میرے تو کالر ٹیون پر بھی فصیح الدین سہروردی کی نعت ’رحمت برس رہی ہے محمد کے شہر میں‘ لگی ہوئی ہے۔‘
مجھے یہ کہانی سمجھ نہیں آئی۔ میں نے کہا، ’اگر تم اوراد ووظائف کا اہتمام کرتے ہو، تسبیح پڑھتے ہو، نماز بھی پڑھ لیتے ہو، نام بھی مسلمانوں والا ہے تو سیدھے سبھاؤ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے؟‘
کہنے لگا، ’سمجھو کہ میں مسلمان بھی ہوں۔ کلمہ سناؤں کیا؟‘
لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ۔ کلمہ سن کر مجھے حیرت نہیں ہوئی۔ جس ادائیگی سے سنایا، اس نے مجھے چونکا دیا۔
میں اپنے دوست کے اس والے پہلو کا ایک زمانے تک ٹھیک سے تجزیہ نہیں کر پایا۔ کبھی لگتا کہ میرا یہ دوست اسلام سے بہت متاثر ہے، مگر یہی بات پھر اس لیے غلط لگتی کہ میرا دوست جدی پشتی اصلی نسلی راسخ العقیدہ ہندو ہے۔ کبھی لگتا کہ یہ بین المذاہب ہم آہنگی کا کوئی مفرد سا نمونہ ہیں، مگر ساتھ ہی یہ خیال آتا کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر سکھ مت میں اسے کوئی دلچسپی کیوں نہیں ہے، حالانکہ اس کے زیادہ تر دوست بھی سکھ برادری سے ہیں۔
چار پانچ سالوں میں ہمارا تعلق اس قدر گہرا ہو گیا کہ میں اس کا محرمِ راز بن گیا۔ ان چیزوں کا مشورہ بھی مجھ سے کرنے لگا جس کی الف بے بھی میں نہ جانتا تھا۔ میں نے کوئی سطحی مشورہ بھی دیا تو اسے بڑے بھائی کا حکم سمجھ کر عمل کر لیتا۔ مشورہ غلط ثابت ہوکر ایک مسئلہ بن جاتا تو اس مسئلے سے نکلنے کا حل بھی مجھ سے ہی مانگتا۔ بے تکلفی اتنی بڑھ گئی کہ میرے گھر آنے سے پہلے بتانے کی زحمت بھی ترک کر دی۔ گھر پر ہوں تو بیٹھ گیا، نہیں ہوں تو چپ چاپ پلٹ گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تین سال پہلے اسی موسم میں بن بتائے دروازے پر آن کھڑا ہوا۔ میں باہر آیا تو غلام عباس کے افسانوں کا مجموعہ میرے ہاتھ میں تھا۔ بیٹھک میں بیٹھے تو پوچھا، ’کیا پڑھ رہے ہو؟‘
میں نے کہا، غلام عباس کا افسانہ ’بمبئی والا‘ تمہارے مطلب کا ہے، پڑھ کر سناؤں؟‘
وہ سگریٹ سلگا کے نیم دراز ہو گیا۔ میں افسانہ پڑھتا گیا خاموشی بڑھتی گئی۔ افسانہ ختم ہوا تو حجرے میں خاموشی برقرار تھی۔ دیکھا تو دوست کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ یہ افسانہ میرے دل کو بھی چھو گیا تھا، مگر میرے دوست پر شاید یہ افسانہ بیت گیا تھا۔
صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اسلامی نام، کتابچے اور تسبیح کا راز پوچھ لیا۔ جو آنسو پلکوں پر لرز رہے تھے، چھلک پڑے۔ کہنے لگا، ’یار ہمارے ابا بہت سمجھ دار آدمی تھے۔ تم ان سے ملتے تو خوش ہو جاتے۔ تمہارے مطلب کے انسان تھے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی نفرتوں نے ان کو اندر سےگھلا دیا تھا۔ انہوں نے اپنے محلے میں آس پڑوس میں اور دوستوں میں ہمیشہ میل جول ہی دیکھا تھا۔ دیوالی پر جب پہلی بار ہماری بھیجی ہوئی سوغات ایک گھر سے واپس ہوئی تو ہمارے گھر میں سوگ کا عالم ہو گیا تھا۔ بعد میں تو بات یہاں تک پہنچی کہ کام دیتے لیتے وقت بھی لوگ مذہب دیکھنے لگے تھے۔ ہمارے بارے میں یہ خیال پختہ ہونے لگا کہ ہم صرف کچرا اٹھا سکتے ہیں، جاڑو پوچا کرسکتے ہیں اور حاجت خانے صاف کرسکتے ہیں۔
’اس صورتِ حال سے دل برداشتہ ہوکر ابا نے انڈیا جانے کا بھی سوچا، مگر یہ ممکن نہ ہو سکا، کیونکہ ہم صدیوں سے یہیں رہ رہے ہیں۔ یہاں ہمارا ماضی ہے، بچپن ہے، گھربار ہے، خاندان ہے۔ ہجرت کی تھوڑی بہت کوششوں کے بعد انہوں نے اس بات کو قبول کر لیا کہ اب ہمیں اچھا لگے یا برا لگے ہمارا جینا مرنا یہیں ہے۔
’ایک شہری ہونے کی حیثیت سے تو انہوں نے بہت ساری چیزوں کو قبول کر لیا تھا مگر ایک باپ کی حیثیت سے اپنے بچوں کے لیے فکرمند تھے۔ چچا کے ساتھ بیٹھ کر انہوں نے ایک دن فیصلہ کیا کہ ہم اپنے بچوں کے مرکب نام رکھیں گے اور نام کا پہلا حصہ اسلامی رکھیں گے۔ بچوں کو یہ بات سمجھائیں گے کہ جہاں کہیں انہیں اپنا نام بتانا پڑے تو وہ پورا نام بتانے کی بجائے نام کا پہلا حصہ بتائیں۔ پورا نام اس لیے نہ بتائیں کہ لوگ ناموں میں مذہب ڈھونڈ لیتے ہیں۔
’انہوں نے یہ بھی طے کیا کہ ہم بچوں کو بچپن میں تھوڑا بہت قرآن بھی پڑھوا دیا کریں گے تاکہ چھ کلمے، کچھ دعائیں انہیں آتی ہوں۔ کہیں خدا نخواستہ کوئی مشکل پیدا ہو جائے تو دم درود پڑھ کر نکل جائیں۔ ابا تو گاڑی میں بیک مرر پر پلاسٹک کی ایک تختی لٹکائے رکھتے تھے جس پر کلمہ شہادت لکھا ہوتا تھا۔ ابا نے سارے کلمے زبانی بھی یاد کیے ہوئے تھے ہمیں بھی یاد کروائے۔ وہ کہتے تھے تم لوگوں آگے جانا ہے اور راستے میں کافی مشکلات آںی ہیں۔ ان مشکلات سے نمٹنٹتے ہوئے تم لوگوں کو کافی محتاط رہنا ہو گا۔ اگر تم کوئی رائے دو گے، میرٹ کی بات کرو گے یا غلطی کی نشاندہی کرو گے تو لوگ عقیدے کی وجہ سے تمہاری بات کو شک کی نظر سے دیکھیں گے۔ بات تھوڑی سی بھی بڑی تو کہانی مسلم ہندو فسادات تک پہنچ سکتی ہے۔ تم ہندو ہو، تمہیں تو اپنی بات کی وضاحت کرنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ لوگ سڑکوں پر ہی عدالت لگا کر تمہاری زندگی کا فیصلہ سنادیں گے۔‘
خوشاب میں دورز قبل ایک بینک کے چوکیدار نے اپنے ہی مینیجر کے سینے میں تین گولیاں اتار دیں۔ بینک مینیجر نے مذہبی حوالے سے اپنے عقیدے کے مطابق کوئی رائے دی تو چوکیدار نے اسے مذہب کی توہین قرار دے دیا، بندوق لہراتا ہوا باہر آیا تو صرف لفظ سن کر ہجوم اس کے ساتھ ہو لیا۔
ہجوم سڑکوں پر نعرے لگاتے ہوئے گیا اور تھانے کا گھیراؤ کر لیا۔ معاملہ ایسا تھا کہ پولیس اہل کاروں میں بھی اسے حمایتی مل گئے۔ جو حمایتی نہیں تھے وہ بے بسی کی تصویر بنے تماشا دیکھتے رہے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر یہاں ہم نے قانون اور عقل کی کوئی بات کی تو اپنے پیٹی بند بھائی کی بندوق بھی گرم ہو سکتی ہے۔
کچھ دیر میں لوگ بینک مینیجر کی فیس بک ٹائم لائن پر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ مقتول فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا عزم ظاہر کر رہا تھا۔ اس کی ٹائم لائن پر خادم حسین رضوی، مولانا طارق جمیل، مفتی طارق مسعود، علامہ طاہر القادری، سید منور حسن جیسی شخصیات کی تقاریر کے سوا کچھ نہیں تھا۔
مقتول کا یہ حوالہ سامنے آیا تو توہین اور گستاخی کی آوازیں دم توڑنے لگیں۔ سوشل میڈیا کے خوش عقیدہ صارفین نے یہ مطالبہ شروع کردیا کہ علمائے کرام آگے بڑھ کر قاتل کی مذمت کریں۔ لوگوں نے اس پیش نماز کو بھی خوب سراہا جس نے جنازے سے پہلے اسے قتلِ ناحق قرار دیا۔ کیا آپ نے غور فرمایا؟ ایک دن تک قاتل کے برحق ہونے کی دلیل یہ تھی کہ قاتل نے مقتول کو گستاخ قرار دیا ہے۔ ایک دن کے بعد اسی قتل کے ناحق ہونے کا ثبوت یہ تھا کہ مقتول کی ٹائم لائن پر فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان موجود ہے۔
اگر غور کرنے پر بھی بات نہ کھلی ہو تو پھر ذرا تصور کریں کہ مقتول اگر یہی بینک مینیجر ہوتا اور اس کی ٹائم لائن پر کسی مغربی مصنف کی کتاب کا اقتباس ہوتا، کلاسیکی موسیقی کا کوئی لنک ہوتا، رقص کی کوئی وڈیو ہوتی، اسلام آباد میں مندر کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے والوں پر افسوس کا اظہار ہوتا، انسانی حقوق کے لیے سرگرم رہنے والے گروہوں کے لیے ہمدردی کا اظہار ہوتا تو کیا ہوتا۔ اگر ٹائم لائن سے پتہ چلتا کہ مقتول غیر مسلم ہے، تب کیا ہوتا؟
کیا کوئی الٹا لٹک کر بھی اس قتل کو قتلِ ناحق ثابت کر سکتا تھا؟ کیا اب تک اس جملے کی کروڑوں بار تکرار نہ ہوچکی ہوتی کہ جب عدالتیں انصاف نہیں دیں گی تو لوگ قانون ہاتھ میں کیوں لیتے؟
تب تو سمجھ نہیں آئی کہ میرے ہندو دوست کے ابا دراصل کہنا کیا چاہ رہے تھے۔ اب سمجھ آ رہا ہے کہ وہ دراصل کہنا کیا چاہ رہے تھے۔