گلگت بلتستان دستور ساز اسمبلی کے 15 نومبر کو ہونے والے انتخابات کے لیے مہم زور و شور سے جاری ہے اور اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین یا تو گلگت میں موجود ہیں یا یہاں کا دورہ کر چکے ہیں۔
اس الیکشن میں جیت کا تاج کس کے سر جائے گا، یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن الیکشن سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر پوسٹل بیلٹ کے لیے جعلی درخواستوں کے حوالے سے خبریں گردش کر رہی ہیں۔
آئی بیکس میڈیا نیٹ ورک سے منسلک صحافی شبیر میر کہتے ہیں کہ ’پوسٹل بیلٹ کے لیے درخواستوں کے حوالے سے سوشل میڈیا اور وٹس آپ پر بڑی تعداد میں شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ یہ درخواستیں کچھ مرحومین اور کچھ ایسے لوگوں کے نام سے ہیں جنہیں کچھ نہیں پتہ کہ ان کے نام پر ایسا کچھ ہو رہا ہے، لیکن اس سلسلے میں کوئی تحقیقات نہیں ہو رہیں۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ درخواستیں عام لوگوں کو سرکاری ملازم ظاہر کرکے ان کے نام پر جعل سازی سے تیار کی گئی ہیں، ان میں سے کچھ تو بے روزگار ہیں اور کچھ اس دنیا میں نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقامی صحافی فدا علی شاہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ سے پوسٹل بیلٹ کے لیے درخواستیں موصول ہو چکی ہیں، کچھ درخواستیں ایسی ہیں جو ایک ہی بندے کے دستخط کے ساتھ موصول ہوئی ہیں جبکہ استور سے بھی ایسی ہی شکایات موصول ہوئی ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ پوسٹل بیلٹ کے لیے سینکڑوں ایسی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں جن میں لوگوں کے نام استعمال کیے گئے ہیں اور ان کو اس بارے میں علم نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو اس بارے میں شکایات درج کروائی جا چکی ہیں لیکن ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
پیپلز پارٹی کے رہنما عباس موسوی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جعلسازی کے حوالے سے پہلا کیس استور میں سامنے آیا تھا، جہاں تقریباً 1700 کے قریب جعلی درخواستیں موصول ہوئی تھیں اور اب گلگت کے دوسرے اضلاع سے بھی کیسز موصول ہوئے ہیں۔ عوام کو ریلوے، واپڈا اور دوسرے سرکاری اداروں کے ملازمین ظاہر کرکے ان کے نام پر درخواستیں بھیجی جا رہی ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن کمیشن کو اس سلسلے میں شکایت درج کروا چکی ہے۔‘
الیکشن کمشن ذرائع نے بھی بے ضابطگیوں کی تصدیق کی ہے، جن کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس پوسٹل بیلٹ کے حوالے سے شکایات موصول ہو رہی ہیں اور کچھ کیسز میں انکوائری بھی جاری ہے تاکہ انتخابات کی شفافیت پر کوئی انگلی نہ اٹھائے اور انتخابات میں کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔‘