مصمم عزم اور حوصلے والا شخص ہی امریکی سینیٹ اور وائٹ ہاؤس میں پچاس برس تک سیاسی جوہر دکھانے کے بعد ملک کے سب سے بڑے عہدے کا انتخاب لڑنے کی جرات کر سکتا ہے۔ یہ عمل اس حوالے سے اور بھی زیادہ مشکل دکھائی دیتا ہے جب آپ کا مدمقابل مہذب مکالمے کے بجائے کردار کشی پر یقین رکھتا ہو۔
جو بائیڈن اگر انتخاب ہار جاتے تو انہیں الزام دیا جاتا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری مرتبہ امریکیوں کی گردنوں پر مسلط کرنے کا باعث بنے۔ ان کی کامیابی نے امریکہ کو ایک طرف ہلاکت خیز عالمی وبا سے بچانے کی راہ ہموار کی، جبکہ دوسری جانب امریکی سیاست کو زہریلے تبصروں اور گہری ہوتی ہوئی سماجی خلیج سے بھی بچایا ہے۔
امریکی اپنی رائے کا اظہار ’بائیڈن۔ہیرس جوڑے‘ کے حق میں کر چکے ہیں۔ جو بائیڈن انتخابی مہم کے دوران اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرپا امن کے قیام کے لیے دو ریاستی حل کے آپشن کو روبعمل لانے کے لیے کافی سرگرم دکھائی دیے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرنے والا ’بہترین دوست‘ قرار دیا جو صراحتاً ان کی تضاد بیانی کا مظہر تھا۔ اپنے دور اقتدار میں ٹرمپ نے مسئلہ فلسطین کے ایک ریاستی حل کی راہ پر بگٹٹ دوڑنے کی جو روایت برقرار رکھی اس نے اسرائیل کو جمہوری یہودی ریاست کے بجائے نسلی امتیاز کا مظہر ملک بنا ڈالا۔
اب بائیڈن کو ٹرمپ انتظامیہ کے ضرر رساں اقدامات کے اثرات زائل کرنا پڑیں گے۔
امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی، 55 لاکھ فلسطینی مہاجرین کو انسانی بنیادوں پر مدد فراہم کرنے والی یو این ایجنسی اور فلسطینی اتھارٹی کو فنڈز کی فراہمی روکنا اور امریکہ میں تنظیم آزادی فلسطین کے نمائندہ دفتر کی تالا بندی جیسے اقدامات کے بعد ٹرمپ کا ضامن امن کا نعرہ مضحکہ خیز دعویٰ بن گیا۔
سوال پیدا ہوتا ہے، کیا جو بائیڈن یہ سب ٹھیک کر پائیں گے؟ جی ہاں! شاید وہ یہ سب درست کر لیں۔ اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ فلسطین۔اسرائیل تعلقات نئی امریکی انتظامیہ کی ترجیحات میں بلند مقام حاصل کر سکیں گے؟ تاہم یہ بات امید دلاتی ہے کہ جو بائیڈن کو چونکہ دوسری مرتبہ صدر بننے کی فکر نہیں، اس لیے وہ نتائج سے بے پروا ہو کر قابل قبول ’امن منصوبہ‘ تیار کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ دیرپا قیام امن منصوبے کو مشکل اقدام جان کر نو منتخب امریکی صدر ملکی سطح پر درپیش اہم مسائل، بالخصوص کرونا (کورونا) وائرس کے خلاف اقدامات، میں اپنی توانائیاں صرف کرنا شروع کر دیں۔ نو منتخب صدر جو بائیڈن کی انتخابی مہم کے طائرانہ جائزے اور ماضی میں اس ضمن میں ان کے کردار سے زیادہ امید افزا اشارے نہیں ملتے۔
گذشتہ برس اپنی انتخابی مہم کے دوران بائیڈن اعلانیہ طور یہ کہتے ہوئے امریکیوں کی امیدوں پر پانی پھیر چکے ہیں کہ اگر میں جیت گیا تو ’معیار زندگی میں کچھ تبدیلی نہ ہو گی، کوئی بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہو گی۔‘
پیرانہ سال سیاست دان امریکی کانگریس کے اندر ماضی میں یہ بھی چیخ چیخ کر کہتے سنے گئے کہ اسرائیل، امریکی استعمار کا قابل بھروسہ حلیف ہے۔ ’اگر یہ ملک [اسرائیل] نہ ہوتا توامریکہ کو خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر ایک اسرائیل ایجاد کرنا پڑتا۔‘ جو بائیڈن کی رائے میں ’اگر وہ یہودی ہوتے، تو صہیونی ہوتے۔‘ ان کے بقول صیہونی بننے کے لیے، یہودی ہونا ضروری نہیں۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اوباما دور میں نائب صدر کے طور پر جو بائیدن نے اسرائیل کو امریکہ سے 2016 میں 38 ارب ڈالر مالیت کی خطیر فوجی امداد دلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ فوجی امداد کا یہ معاہدہ 2026 میں اختتام پذیر ہو گا۔ اسرائیل اور اس کی ہم خیال لابی مبینہ طور پر ایک مرتبہ پھر ایسا ہی طویل المیعاد معاہدہ کرانے کے لیے سرگرم ہو چکے ہیں۔
ان حقائق کی روشنی میں یہ بات باعث حیریت نہیں ہو گی کہ خارجہ پالیسی میں اسرائیل اور فلسطین کے معاملے پر بائیڈن کوئی آؤٹ آف دا باکس حل پیش کرنے کے بجائے تباہ کن، پرتشدد اور نسلی امتیاز کا مظہر ’سٹیٹس کو‘ سیاسی ترکہ چھوڑ کر جانے والے ہیں۔
براک اوباما کے دور صدارت میں جو بائیڈن نائب صدر تھے۔ اوباما دور میں مسئلہ فلسطین کے حل کی خاطر شروع کیا جانے والا ’کیری امن منصوبہ‘ دونوں فریقین کے سخت گیر موقف کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوا۔ واشنگٹن کا دونوں حریفوں پر دباؤ ڈالنے سے اجتناب بھی کیری منصوبے کی ناکامی کی ایک اہم وجہ تھی۔ امریکہ اس ضمن میں اسرائیل کو قطعی کسی دباؤ میں لانے کے حق میں نہیں تھا۔
مسئلہ فلسطین حل کے لیے 14-2013 کی صورت حال آج کے حالات سے زیادہ ساز گار تھی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک نیا امریکی صدر جسے اندرون اور بیرون ملک گھمبیر مسائل کا سامنا ہو، وہ ایک ایسے منصوبے میں اپنی توانائیاں کیونکر کھپائے گا، جو ماضی میں پے در پے ناکامیوں کا عنوان رہا ہو!؟
موہوم جامع امن منصوبہ کے امکان کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ بائیڈن انتظامیہ فلسطینیوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے وہ اقدام کرنے سے بھی گریز کرے جو اسرائیل-امریکہ تعلقات کے لیے نقصان دہ نہ ہو یا ان سے امریکہ میں موجود صیہونی لابی کی ناراضی کا اندیشہ نہیں۔
امید کا دامن تھامے، چھوٹے مگر اہم اقدامات کے ذریعے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تعمیری مذاکرات کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے بعد سے مقبوضہ عرب علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا امکان کم ہو چکا ہے۔ پہلا مثبت اقدام واشنگٹن میں فلسطینی مشن کھول کر اٹھایا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی بندش غیر ضروری اور غیر عاقلانہ فعل تھا۔
مشرقی بیتت المقدس میں امریکی قونصل جنرل دفتر کی بندش ٹرمپ انتظامیہ کی غیر سفارتی حماقت تھی، یہ دفتر مستقبل کی فلسطینی ریاست کے لیے ایک سفارت خانے کا کام دے رہا تھا۔ مشرقی بیت المقدس میں علامتی سفارتی موجودگی ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے ان فیصلوں سے دست کشی شمار ہو گی جن کے ذریعے وہ فلسطینیوں کو دیوار سے لگانا چاہتے تھے۔
گذشتہ چار برسوں کے دوران ہر امریکی اقدام نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بنیادی متنازع مسائل پر مذاکرات کی منزل کھوٹی کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کوئی بھی امریکی انتظامیہ تل ابیب سے اپنے سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے فیصلے کی منسوخی کی جرات نہیں کر سکتی۔ اس فیصلے سے پہنچنے والا نقصان کم کرنے کے لیے آزاد فلسطینی ریاست تسلیم کیے جانے کے بعد امریکہ وہاں اپنا دوسرا سفارت خانہ کھول لے۔
واشنگٹن اور رام اللہ کے درمیان اعتماد سازی کا دوسرا اہم مرحلہ فلسطینی اتھارٹی اور فلسطینی مہاجرین کی مالی امداد کی بحالی کی صورت طے کیا جا سکتا ہے۔ جب تک مقبوضہ علاقوں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے فلسطینیوں کو اپنا حق خود ارادیت نہیں ملتا اس وقت تک امریکہ انہیں ملنے والی بین الاقوامی مالی امداد کو یقینی بنانے میں اپنا فعال کردار کرتا رہے۔
بائیڈن انتظامیہ اسرائیل-امریکہ تعلقات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی تو نہیں لا سکتی۔ دونوں ملکوں کے درمیان تزویراتی اور تاریخی اتحاد برقرار رہے گا۔ نئی امریکی انتظامیہ کو اپنے حلیف اسرائیل کو واضح طور پر بتانا چاہئے کہ یہودی بستیوں کے جال میں پھیلاؤ کو امریکہ تشویش کی نگاہ سے دیکھے گا۔
غرب اردن کے تسلط اور غزہ کے محاصرہ میں نرمی سے انکار امن مذاکرات کے لیے سازگار ماحول کی راہ میں پہلی رکاوٹ ہے۔ یہ اقدام اٹھا کر ایک طرف امریکہ معاملات کو برابری کی سطح پر دیکھنے والا فریق سمجھا جائے گا جبکہ دوسری جانب اسے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کا حقیقی دوست اور اتحادی بھی گردانا جائے گا۔